سورة الجمعة - آیت 5

مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ان کی مثال جن پر توریت لادی گئی ۔ پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا ۔ گدھے کی سی مثال ہے جو کتابیں اٹھاتا ہے ۔ ان لوگوں کی (مثال) جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا بری مثال ہے ۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تعالیٰ نے اس امت پر اپنے احسانات کا ذکر فرمایا جن کے اندر اپنا نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمایا ۔تو ان کے ایسے خصوصی مناقب کا ذکر کیا جن میں کوئی شخص ان تک نہیں پہنچ سکا ،اس سے مراد نبی امی کی امت کے لوگ ہیں، جو اولین وآخرین پر فوقیت لے گئے ، حتی کہ اہل کتاب پر بھی فوقیت لے گئے جو اپنے آپ کو علمائے ربانی اور احبار متقدمین سمجھتے تھے۔ ۔۔۔تو یہ بھی ذکر فرمایا کہ یہودونصارٰی میں سے وہ لوگ جن پر تورات کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی اور ان کو حکم تھا کہ وہ تورات کی تعلیم حاصل کریں اور اس پر عمل کریں، انہوں نے اس ذمہ داری کو اٹھایا نہ پورا کیا تو ان کے لیے کوئی فضیلت نہیں اور ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس کی پیٹھ پر علمی کتابوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہو ۔کیا یہ گدھا ان کتابوں سے مستفید ہوسکتا ہے جو اس کی پیٹھ پر لاد دی گئی ہیں؟ کیا اس سبب سے اسے کوئی فضیلت ہوسکتی ہے؟ یا اس کا نصیب تو بس ان کتابوں کو اٹھانا ہے ؟ یہ مثال اہل کتاب کے ان علما ءکی ہے جو تورات کے احکامات پر عمل نہیں کرتے، جن میں جلیل ترین عظیم ترین حکم حضرت محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم، آپ کی بعثت کی بشارت اور آپ جو قرآن لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانے کا حکم ہے، پس جس کا یہ وصف ہو وہ ناکامی اور خسارے اور اس کے خلاف حجت کے قائم ہونے کے سوا کیا فائدہ حاصل کرسکتا ہے ؟ یہ مثال ان کے احوال کے عین مطابق ہے۔ ﴿ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ﴾ ”جو لوگ اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں ان کی مثال بری ہے ۔“یعنی وہ آیات جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور جو کچھ آپ لائے ہیں اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ”اور اللہ ظالموں کو ہدایت عطا نہیں کرتا۔“ یعنی جب تک ظلم ان کا وصف اور عناد ان کی صفت ہے ،تب تک اللہ تعالیٰ ان کی ان کے مصالح کی طرف راہ نمائی نہیں کرے گا ۔یہود کا ظلم اور عناد یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ باطل پر ہیں مگر وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ حق پر ہیں اور تمام لوگوں میں سے صرف وہی اللہ کے دوست ہیں۔