وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور جو تم سے مسلمان (آزاد) بیبیوں کے ساتھ نکاح کا مقدور نہ رکھتا ہو وہ تمہاری مسلمان باندیوں کے ساتھ جو تمہاری ملک ہوں نکاح کرلے اور خدا تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے تم آپس میں ایک ہو سو باندیوں سے نکاح ان کے مالکوں کی اجازت سے کرو اور دستور کے مطابق ان کو ان کے مہر دو ، جب کہ باندیاں قید نکاح میں آنے والیاں ہوں نہ کہ مستی نکالنے والیاں اور نہ پوشیدہ یار رکھنے والیاں ، (ف ١) پھر جب وہ قید نکاح میں آجائیں ، پھر زنا کریں تو جس قدر عذاب آزاد عورت کے لئے مقرر ہے اس کا نصف ان پر ہوگا ، یہ حکم ان کے لئے ہے جو تم میں بدکاری سے ڈرے اور اگر تم صبر کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے ۔
یعنی تم میں سے جو کوئی آزاد اور مومن عورتوں کو حق مہر ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے آپ پر بدکاری اور مشقت کا خطرہ ہو، تو اس کے لیے مومن لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے یہ تو ظاہری احوال کے مطابق ہے ورنہ اللہ تعالیٰ مومن صادق کو خوب جانتا ہے۔ دنیاوی امور ان کے ظاہر پر مبنی ہیں اور آخرت کے احکام کا تعلق انسان کے باطن میں چھپی نیتوں کے ساتھ ہے۔ ﴿ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ ﴾ ” پس تم لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں کی اجازت لے کر نکاح کرلو“ خواہ مالک ایک ہو یا متعدد ہوں۔ ﴿وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ﴾” اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کر دو۔“ یعنی اگرچہ جن کے ساتھ نکاح کیا جا رہا ہے وہ لونڈیاں ہیں تاہم ان کو مہر ادا کرنا اسی طرح فرض ہے جس طرح آزاد کو ادا کرنا فرض ہے۔ مگر لونڈیوں سے نکاح کرنا صرف اسی صورت میں جائز ہے کہ وہ ﴿الْمُحْصَنَاتِ ﴾ ہوں یعنی زنا سے پاک ہوں،﴿غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ ﴾ علانیہ بدکاری سے بچی ہوئی ہوں،﴿وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ﴾ نہ انہوں نے خفیہ یار دوست بنا رکھے ہوں۔ حاصل کلام یہ کہ آزاد مسلمان کے لیے لونڈی کے ساتھ ان چار شرائط کے بغیر نکاح کرنا جائز نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ (١) لونڈیاں مومن ہوں۔ (٢) ظاہر اور باطن میں پاکباز ہوں۔ (٣) آزاد عورت کے ساتھ نکاح کی استطاعت نہ ہو۔ (٤) عدم نکاح کی صورت میں بدکاری کا خوف ہو۔ جب یہ شرائط پوری ہوں تو لونڈی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے۔ بایں ہمہ لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے سے باز رہنا افضل ہے، کیونکہ لونڈیوں سے نکاح کرنے والے کی اولاد کو غلامی کا طعنہ دیا جاتا ہے نیز یہ گھٹیا بات ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ انسان صبر کرسکتا ہو اگر وہ حرام میں پڑنے سے باز نہ رہ سکتا ہو تب اس پر لونڈی سے نکاح کرنا واجب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَأَن تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴾ ” اور تمہارا صبر کرنا تمہارے لیے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “ ﴿فَإِذَا أُحْصِنَّ ﴾ یعنی جب وہ نکاح کرلیں یا مسلمان ہوجائیں۔ ﴿فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ﴾ ”پھر اگر ان سے بے حیائی کا کام سر زد ہو تو انہیں آزاد عورتوں سے آدھی سزا دی جائے گی“ یعنی جو آزاد عورتوں کی سزا ہے اس سے نصف لونڈیوں کی سزا ہے۔ وہ سزا جس کا نصف ممکن ہے کوڑوں کی سزا ہے تب ان کے لیے پچاس کوڑوں کی سزا ہے۔ رہی رجم کی بات تو لونڈیوں کے لیے رجم نہیں ہے کیونکہ رجم کا نصف ممکن نہیں۔ لہٰذا اس میں پہلا قول یہ ہے کہ اگر انہوں نے نکاح نہ کیا ہو تو ان پر کوئی حد نہیں۔ البتہ ان کو تعزیری سزا دی جائے تاکہ وہ فواحش کے ارتکاب سے باز رہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر غیر مسلم لونڈیاں فواحش کا ارتکاب کریں تو ان کو بھی تعزیر کی جائے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ کا اختتام اپنے دو اسمائے مبارک (اَلْغَفُوْرٌ) ” بخشنے والا“ (اَلرَّحِیْم) ” نہایت رحم کرنے والا“ پر کیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے یہ احکام بندوں پر رحمت، اور اس کا کرم و احسان ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو تنگی میں مبتلا نہیں کیا بلکہ ان کو کشادگی اور وسعت عطا کی۔ شاید حد کا ذکر کرنے کے بعد مغفرت کا ذکر کرنا، اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ حد کفارہ ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہ بخشتا ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔ مذکورہ بالا حد میں غلام کا بھی وہی حکم ہے جو لونڈی کا حکم ہے کیونکہ دونوں میں امتیاز اور فرق کرنے والا سبب معدوم ہے۔