سورة الرحمن - آیت 76

مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

سبز قالینوں اور قیمتی نفیس چاندنیوں کے فرشوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ﴾ اَلْعَبْقَرِی ہر اس بُنے ہوئے کپڑے وغیرہ کو کہتے ہیں جسے نہایت خوبصورت طریقے سے بنایا گیا ہو،بنابریں ایک ایسے حسن کے ذریعے سے اس کا وصف بیان کیا گیا ہے جو حسن صنعت اور حسن منظر اور ملائمت لمس کو شامل ہے ۔یہ دونوں جنتیں ان پہلی جنتوں سے کم تر ہیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعے سے منصوص فرمایا ہے :﴿وَمِن دُونِهِمَا جَنَّتَانِ﴾( الرحمٰن: 55؍62) ’’ا ور ان سے کمتر درجے کی دو جنتیں ہوں گی۔ ‘‘اور پہلی دو جنتوں کو متعدد اوصاف سے موصوف کیا ہے اور دوسری جنتوں کو ان اوصاف سے موصوف نہیں کیا ۔پہلی دو جنتوں کے بارے میں فرمایا :﴿فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ﴾(الرحمٰن:55؍50) ’’ان میں دو چشمے جاری ہیں۔ ‘‘اور آخری دو جنتوں کے بارے میں فرمایا :﴿ فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ ﴾(الرحمٰن:55؍66) ’’ان میں دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ ‘‘اور یہ ایک معلوم امر ہے کہ جاری چشموں اور ابلنے والے چشموں کے درمیان فرق ہے۔ پہلی جنتوں کے بارے میں فرمایا :﴿ ذَوَاتَا أَفْنَانٍ ﴾(الرحمٰن:55؍48) ’’دونوں جنتیں شاخوں والی ہیں ۔ ‘‘اور آخرالذکر جنتوں کے بارے میں یہ الفاظ ارشاد نہیں فرمائے ۔ اول الذکر جنتوں کے بارے میں فرمایا :﴿فِيهِمَا مِن كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجَانِ﴾( الرحمٰن:55؍56) ’’ان جنتوں میں ہر قسم کے پھلوں کی دو دو قسمیں ہوں گی ۔ ‘‘اور آخر الذکر کے بارے میں فرمایا: ﴿فِيهِمَا فَاكِهَةٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ﴾( الرحمٰن: 55؍68) ’’ان دونوں میں پھل ،کھجور اور انار ہوں گے ۔ ‘‘ان دونوں بیان کردہ اوصاف کے درمیان جو تفاوت ہے وہ معلوم ہے۔ اول الذکر جنتوں کے بارے میں فرمایا: ﴿مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ۚ وَجَنَا الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ﴾ ( الرحمٰن: 55؍54) ’’جنتی ایسی مسندوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے اور ان دونوں جنتوں کے پھل بالکل قریب ہی ہوں گے۔‘‘اور آخر الذکر کے بارے میں یہ الفاظ ذکر نہیں کیے بلکہ فرمایا :﴿مُتَّکِــــِٕیْنَ عَلٰی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ﴾ ’ ’ان (جنتوں میں) سبز قالینوں اور عمدہ بچھونوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے ۔ ‘‘اول الذکر جنتوں کی عورتوں کے اوصاف کے بارے میں فرمایا :﴿فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ﴾ (الرحمٰن :55؍56)’’وہاں نیچی نگاہ والی (حوریں) ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی جن وانس نے ہاتھ نہیں لگایا ۔ ‘‘اور آخرالذکر کے بارے میں فرمایا: ﴿حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ﴾ (الرحمٰن:55؍72) ’’حوریں جو خیموں میں محفوظ ہوں گی ۔ ‘‘ان دونوں کے درمیان جو تفاوت ہے وہ بھی معلوم ہے۔ اول الذکر جنت کے بارے میں فرمایا :﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾ (الرحمٰن:55؍60) ’’احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے؟‘‘یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یہ جنتیں محسنین کی جزا ہیں ۔ آخرالذکر جنتوں کے بارے میں یہ نہیں کہا ،یا نیز اول الذکر جنتوں کی مجرد تقدیم ہی ان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر اول الذکر جنتوں کی آخر الذکر جنتوں پر فضیلت کی معرفت حاصل ہوتی ہے،نیز معلوم ہوتا ہے کہ اول الذکر جنتیں مقربین یعنی انبیا ء،صدیقین اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں میں سے خواص کے لیے تیار کی گئی ہیں اور آخر الذکر جنتیں تمام اہل ایمان کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ ان مذکورہ تمام جنتوں میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جو کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی بشر کے دل میں کبھی ان کا تصور آیا ہے۔ان جنتوں میں ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جن کی نفس خواہش کریں گے اور آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔ان جنتوں کے رہنے والے انتہائی راحت،رضا، طمانینت اور بہترین مقام میں رہیں گے حتی کہ ہر شخص دوسرے کو اس سے بہتر حال اور ان نعمتوں سے اعلیٰ نعمتوں میں نہیں سمجھے گا جن میں وہ خود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بے پایاں فضل واحسان کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: