سورة آل عمران - آیت 193

رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے ہمارے رب ! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کے لئے پکارتا ہے کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ سو ہم ایمان لائے ، اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری بدیوں کو دور کر اور ہمیں نیک کرداروں کے ساتھ وفات دے ۔ (ف ١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے نقل فرمایا :﴿رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ ﴾ ” اے ہمارے رب ! ہم نے ایک منادی کو سنا جو ایمان لانے کی دا دیتا ہے“ ایمان کی منادی دینے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو لوگوں کو ایمان کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے اصول و فروع میں ان کو ترغیب دیتے ہیں ﴿فَآمَنَّا﴾ پس ہم نے جلدی سے آگے بڑھ کر ان کی دعوت پر لبیک کہا۔ اس آیت کریمہ کریمہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کے احسان، اس کی نعمت پر اظہار فخر اور اس ایمان کو اپنے گناہوں کی بخشش اور برائیوں کو مٹانے کے لیے وسیلہ بنانے کی خبر ہے۔ کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ وہ ہستی جس نے انہیں ایمان سے نوازا ہے وہی انہیں کامل ایمان سے نوازے گی۔ ﴿ وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ  ﴾” اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دے“ یہ دعا اس بات کو متضمن ہے کہ نیکی کرنا اور برائی کو ترک کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہوتا ہے جس کی بنا پر بندہ ” ابرار“ میں شمار ہوتا ہے اور اس توفیق کی بنا پر نیکی کرنے اور برائی چھوڑنے پر اپنی موت تک ہمیشہ ثابت قدم رہتا ہے۔