سورة النجم - آیت 30

ذَٰلِكَ مَبْلَغُهُم مِّنَ الْعِلْمِ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَىٰ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ان کی سمجھ کی انتہا یہیں تک ہے ۔ تیرا رب ہی سے خوب جانتا ہے ۔ جو اس کی راہ سے بہکا ہوا ہے اور اسے بھی جوب جانتا ہے جو ہدایت پر ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ذٰلِکَ مَبْلَغُہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ ﴾ ان کے علم کی یہی غایت اور انتہا ہے۔ رہے آخرت پر ایمان رکھنے اور اس کی تصدیق کرنے والے عقل مند اور خرد مند لوگ تو ان کی ہمت اور ارادہ آخرت پر مرتکز رہتا ہے۔ ان کے علوم سب سے افضل اور سب سے جلیل القدر علوم ہیں یہ علوم کتاب اللہ اور سنت رسول سے ماخوذ ہیں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون ہدایت کا مستحق ہے پس وہ اسے ہدایت سے نواز دیتا ہے اور کون ہدایت کا مستحق نہیں ہے اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے اور اس سے الگ ہوجاتا ہے پس وہ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔ بنا بریں فرمایا: ﴿اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اہْتَدٰی﴾ ’’بے شک آپ کا رب اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گیا اور وہی اس شخص سے بھی خوب واقف ہے جو اس کے راستے پر چلا۔‘‘ چنانچہ وہ اپنے فضل وکرم کو اس محل ومقام پر رکھتا ہے جو اس کے لائق ہے۔