وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ
اور جب خدا نے اہل کتاب سے عہد لیا تھا کہ تم اس کتاب کا بیان لوگوں سے کرو گے اور اسے نہ چھپاؤ اور انہوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے مقابلہ میں حقیر قیمت خریدی سو انہوں نے کیسی بری شے خرید کی (ف ١)
﴿مِيثَاقَ﴾ اس عہد کو کہتے ہیں جو بہت موکد اور بھاری ذمہ داری کا حامل ہو۔ یہ عہد اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص سے لیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کتاب عطا کی اور اسے علم سے نوازا۔ اس سے یہ عہد لیا کہ لوگ اس کے علم میں سے جس چیز کے محتاج ہوں وہ ان کے سامنے بیان کرے اور ان سے کوئی چیز نہ چھپائے اور نہ علم بیان کرنے میں بخل سے کام لے خاص طور پر جب اس سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے یا کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے جو علمی راہنمائی کا متقاضی ہو۔ پس اس صورتحال میں ہر صاحب علم پر فرض ہے کہ وہ مسئلہ کو بیان کر کے حق اور باطل کو واضح کر دے۔ اور جن لوگوں کو اللہ نے توفیق سے نوازا ہے، وہ اس ذمہ داری کو پوری طرح نبھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو علم ان کو عطا کیا وہ اسے اللہ کی رضا کی خاطر لوگوں پر شفقت کی وجہ سے اور کتمان علم کے گناہ سے ڈرتے ہوئے لوگوں کو سکھاتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جن کو کتاب عطا کی گئی یعنی یہود و نصاریٰ اور ان جیسے دیگر لوگ تو انہوں نے اس عہد اور میثاق کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور اس میثاق کی انہوں نے پروا نہیں کی۔ پس انہوں نے حق کو چھپا لیا اور باطل کو ظاہر کیا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو حقیر سمجھتے ہوئے محرمات کے ارتکاب کی جرأت کی اور اس کتمان حق کے بدلے بہت معمولی قیمت لی۔ وہ یہ تھی کہ انہیں کتمان حق کی بنا پر سرداری حاصل ہوئی اور ان کے گھٹیا پیروکاروں کی طرف سے، جو ان کی خواہشات کی پیروی کرتے تھے اور حق پر خواہشات کو مقدم رکھتے تھے، ان کو حقیر سے مال کے نذرانے پیش ہوتے تھے۔ ﴿فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ ﴾” پس کتنا برا ہے جو وہ خریدتے (حاصل کرتے) ہیں‘‘ کیونکہ یہ خسیس ترین معاوضہ ہے جو انہوں نے حاصل کیا ہے اور جس حق کے بیان کرنے سے انہوں نے روگردانی کی، اس حق میں ان کی ابدی سعادت، دینی اور دنیاوی مصالح موجود ہیں اور یہ حق سب سے بڑا اور جلیل ترین مطلوب و مقصود ہے۔ پس انہوں نے محض اپنی بدنصیبی اور ذلت کی بنا پر عالی مرتبہ دین کو چھوڑ کر گھٹیا طریق زندگی اختیار کرلیا، نیز اس لیے بھی کہ انہوں نے وہی چیز اختیار کرلی جس کے لیے وہ پیدا ہوئے تھے۔