مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ
اور خدا ایسا نہیں کہ وہ مومنوں کو اسی حالت پر چھوڑے رکھے جس پر تم اب ہو ۔ یہاں تک کہ وہ ناپاک کو پاک سے جدا کر دے ، اور خدا ایسا نہیں ہے کہ تمہیں غیب پر مطلع کر دے (ف ١) لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے (غیب کی خبر کے لئے) چن لیتا ہے سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے ۔
یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت نہیں کہ وہ اہل ایمان کو پرکھے بغیر خلط ملط حالت میں چھوڑ دے۔ وہ ان کو پرکھے گا اور پاک کو ناپاک میں سے، مومن کو منافق میں سے اور سچے کو جھوٹے میں سے علیحدہ کرے گا۔ نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت نہیں کہ اپنے بندوں کو اس غیب پر مطلع کرے جس کا علم اس نے اپنے بعض بندوں (رسولوں) کو عطا کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حکمت تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو مختلف قسم کی آزمائش اور امتحان میں مبتلا کرے تاکہ پاک میں سے ناپاک ممیز ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل مبعوث فرمائے اور ان کی اطاعت، ان کی پیروی اور ان پر ایمان لانے کا حکم دیا۔ ایمان اور تقویٰ کےبدلے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔ پس انبیائے کرام کی اتباع کے اعتبار سے لوگ دو قسم میں منقسم ہیں: اطاعت گزار اور نافرمان، مومنین اور منافقین، مسلمان اور کفار۔ تاکہ ان پر اللہ تعالیٰ کا ثواب و عقاب مترتب ہو۔ اور تاکہ اس کا عدل و فضل اور اس کی مخلوق پر اس کی حکمت ظاہر ہو۔