سورة ق - آیت 2

بَلْ عَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بلکہ انہیں تعجب ہوا کہ ان کے انہیں میں سے ایک ڈرانے والا آیا ہے پس کافروں نے کہا کہ یہ عجیب شئے ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

مگر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے بنا بریں فرمایا : ﴿بَلْ عَجِبُوا﴾ یعنی رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والے تعجب کرتے ہیں ﴿أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ﴾ ” کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک متنبہ کرنے والا آیا“ جو انہیں ایسے امور کے بارے میں متنبہ کرتا ہے جو انہیں نقصان دیتے ہیں اور وہ انہیں ایسے امور کا حکم دیتا ہے جوا نہیں فائدہ دیتے ہیں اور وہ خود ان کی جنس سے ہے جس سے علم حاصل کرنا، اس کے احوال اور اس کی صداقت کے بارے میں معرفت حاصل کرنا ممکن ہے۔ لہٰذا انہوں نے ایک ایسے امر پر تعجب کیا جس پر تعجب کرنا ان کے لئے مناسب نہیں بلکہ اس پر تعجب کرنے والی عقل پر تعجب کرنا چاہیے۔ ﴿فَقَالَ الْكَافِرُونَ﴾ ” کافر کہنے لگے۔“ جس نے ان کو اس تعجب پر آمادہ کیا ہے وہ ان کی ذہانت اور عقل کی کمی نہیں بلکہ ان کا کفر اور تکذیب ہے۔ ﴿هـٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ ﴾ یہ بڑی انوکھی چیز ہے۔ ان کا اس کو انوکھا اور نادر سمجھنا دو امور میں سے کسی ایک پر مبنی ہے۔ (1) یا تو وہ اپنے تعجب اور اسے انوکھا سمجھنے میں سچے ہیں، تب یہ چیز ان کی جہالت اور کم عقلی پر دلالت کرتی ہے، اس پاگل اور مجنون شخص کی مانند، جو عقل مند شخص کے کلام پر تعجب کرتا ہے، اس بزدل شخص کی مانند جو شہسوار کے شہسواروں کے ساتھ بھڑ جانے پر تعجب کرتا ہے اور اس کنجوس کی مانند جو سخی لوگوں کی سخاوت پر تعجب کرتا ہے، جس کا یہ حال ہو، اس کے تعجب کرنے سے کون سا نقصان ہے؟ کیا اس کا تعجب اس کی بہت زیادہ جہالت اور اس کے ظلم کی دلیل نہیں؟ (2) یا ان کا تعجب اس لحاظ سے ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی غلطی کو جانتے ہیں، تب یہ سب سے بڑا اور بدترین ظلم ہے۔