سورة الأحقاف - آیت 9

قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ میں کچھ نیا رسول نہیں ہوں اور میں (محض قیاس سے) نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا ۔ ( البتہ جو جانتا ہوں وہی خدا سے یقینی جانتا ہوں) میں تو اسی تابع ہوں ۔ جو بذریعہ وحی مجھ پر نازل ہوتا ہے اور میں تو صرف کھول کر ڈر سنانے والا ہوں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ ﴾ یعنی میں کوئی پہلا رسول نہیں جو تمہارے پاس آیا ہوں کہ تم میری رسالت کو عجیب و غریب پاؤ اور میری دعوت کا انکار کرو، مجھ سے پہلے بھی انبیاء و رسل آچکے ہیں، میری دعوت اور ان کی دعوت میں موافقت ہے پھر تم کسی بنا پر میری رسالت کا انکار کر رہے ہو۔ ﴿ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ﴾ ” اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟‘‘ یعنی میں تو صرف ایک بشر ہوں، میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں، میرے اور تمہارے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ ہی تصرف کرتا ہے، مجھ پر اور تم پر وہی اپنے فیصلے نافذ کرتا ہے۔ میں اپنی طرف سے کچھ پیش نہیں کرتا ﴿ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴾ ” اور میں تو صرف علی الاعلان ڈرانے والا ہوں۔“ لہٰذا اگر تم میری رسالت کو مانتے ہوئے میری دعوت کو قبول کرلو تو یہ دنیا اور آخرت میں تمہاری خوش نصیبی اور تمہارا بہرۂ وافر ہے اور اگر تم اس دعوت کو ٹھکرادو تو تمہارا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے، میں نے تو تمہیں برے انجام سے خبردار کردیا ہے اور جس نے خبردار کردیا وہ برئ الذمہ ہے۔