أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
وہ جنہوں نے برائیاں کمائی ہیں کیا ایسے سمجھتے ہیں ۔ کہ ہم انہیں ان کے برابر کردیں گے ۔ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ۔ ان سب کا مرنا جینا ایک سا ہوگا بڑے دعویٰ(ف 1) ہیں جو وہ کرتے ہیں
کیا کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کرنے والے گناہ گار لوگوں اور اپنے رب کے حقوق میں کوتاہی کرنے والے سمجھتے ہیں ﴿أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ ” کہ ہم ان کو ان جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔“ یعنی انہوں نے اپنے رب کے حقوق قائم کئے، اسے ناراض کرنے سے اجتناب کیا اور ہمیشہ اس کی رضا کو اپنی خواہشات نفس پر ترجیح دیتے ہیں، یعنی کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ﴿ سَوَاءً ﴾ وہ دنیا و آخرت میں مساوی ہوں گے؟ ان کا اندازہ اور ان کا یہ گمان بہت برا ہے اور بہت برا ہے وہ فیصلہ جو انہوں نے کیا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو احکم الحاکمین، سب سے بڑھ کر عادل ہستی کی حکمت کے خلاف، عقل سلیم اور فطرت مستقیم کے متناقض اور ان اصولوں کے متضاد ہے جنہیں لے کرکتابیں نازل ہوئیں اور جن کے بارے میں انبیاء و مرسلین نے آگاہ کیا۔ فی الواقع قطعی فیصلہ یہ ہے کہ اہل ایمان جو نیک عمل کرتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے اس کی نیکی کے مطابق نصرت، فلاح، سعادت اور دنیا و آخرت کا ثواب ہے اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کی سخت ناراضی، رسوائی، عذاب اور بدبختی ہے۔