وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اور ان کا قول صرف یہی تھا کہ انہوں نے کہا کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہ اور جو زیادتی ہمارے کاموں میں ہم سے ہوئی تو معاف کر دے اور ہمارے قدم ثابت رکھ اور ہمیں کافر قوم پر مدد دے ۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی اس دعا کا ذکر فرمایا جس میں انہوں نے اپنے رب سے فتح و نصرت طلب کی ہے۔ ﴿وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ﴾ یعنی ان انتہائی مشکل مقامات پر ان کا یہی قول تھا۔ ﴿ إِلَّا أَن قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا ﴾” اے ہمارے رب ہمارے گناہ اور وہ زیادتیاں جو ہمارے معاملے میں ہم سے سر زد ہوئی ہیں بخش دے۔“ اسراف سے مراد حد سے تجاوز کر کے حرام امور میں داخل ہونا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ گناہ اور اسراف اللہ تعالیٰ کی نصرت اور توفیق کے اٹھ جانے کا سب سے بڑا سبب ہے اور گناہ اور اسراف کو چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کی نصرت کے حصول کا سبب ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنے گناہوں کی بخشش کا سوال کیا۔ پھر انہوں نے محض اپنی جدوجہد اور اپنے صبر ہی پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر اعتماد کیا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ دشمن سے مقابلہ ہونے کے وقت انہیں ثابت قدمی سے نوازے اور دشمن کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا کرے۔ پس اہل ایمان نے صبر کرنے، صبر کے متضاد امور کو ترک کرنے، توبہ، استغفار اور اللہ تعالیٰ سے فتح و نصرت کی دعا کو ایک جگہ جمع کردیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح و نصرت سے نوازا اور دنیا و آخرت میں ان کا اچھا انجام کیا