اللَّهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ ۗ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ
اللہ وہ ہے جس نے کتاب سچے دین پر اتاری اور ترازو بھی (نازل کی) اور تو کیا جانے شاید قیامت قریب آلگی ہو
یہ واضح کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کے دلائل واضح اور روشن ہیں، کیونکہ ہر وہ شخص ان کو قبول کرتا ہے جس میں کچھ بھی بھلائی ہے، ان دلائل کا قاعدہ اور اصول بیان کیا بلکہ تمام دلائل کا جو اس نے بندوں کو عطا کئے ہیں، لہٰذا فرمایا : ﴿ اللّٰـهُ الَّذِي أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ﴾ ” اللہ ہی تو ہے جس نے سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی اور میزان“ کتاب سے مراد قرآن عظیم ہے جو حق کے ساتھ نازل ہوا اور یہ حق، صدق اور یقین پر مشتمل ہے۔ تمام مطالب الٰہیہ اور عقائد دینیہ کے بارے میں وہ روشن نشانیوں اور واضح دلائل پر مشتمل ہے یہ کتاب عظیم بہترین مسائل اور واضح ترین دلائل لے کر آئی ہے۔ میزان سے مراد قیاس صحیح اور عقل راجح کے ذریعے سے عدل و تعبیر ہے۔ چنانچہ تمام عقلی دلائل، یعنی آفاق اور انفس میں موجود نشانیاں، شرعی تعبیرات، مناسبات، علتیں، احکام اور حکمتیں، میزان میں داخل ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرما کر بندوں کے سامنے پیش کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے ان امور کا وزن کریں جن کا اللہ تعالیٰ نے اثبات کیا ہے یا جن کی اس نے نفی کی ہے اور ان امور کو پہچانیں جن کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے اور ان امور کو پہنچانیں جو کتاب اور میزان پر پورے نہیں اترتے اور جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ حجت، برہان یا دلیل یا اس قسم کی کوئی تعبیر ہیں کیونکہ یہ سب باطل اور متناقض ہیں ان کے اصول فاسد اور ان کی بنیاد اور ان کے فروع منہدم ہوگئے۔ اس میزان کے ذریعے سے مسائل کی خبر اور اس کی ماخذ کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اس کے ذریعے سے دلائل راجحہ اور دلائل مرجوحہ کے درمیان امتیاز اور اس کے ذریعے سے دلائل اور شبہات کے درمیان فرق کیا جاتا ہے۔ رہا وہ شخص جو آراستہ عبارات، ملمع شدہ خوبصورت الفاظ کے فریب میں مبتلا ہو کر معنی مراد میں بصیرت حاصل نہیں کرتا تو وہ اس شان کے لوگوں میں شامل ہے نہ اس میدان کا شہسوار ہے، پس اس کی موافقت اور مخالفت برابر ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے لئے جلدی مچانے والوں اور اس کا انکار کرنے والوں کو ڈراتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ﴾ ” اور تم کو کیا معلوم شاید قیامت قریب ہی آ پہنچی ہو۔“ یعنی اس کے دور ہونے کا علم ہے نہ یہ معلوم ہے کہ وہ کب قائم ہوگی؟ پس اس کا وقوع ہر وقت متوقع ہے اور اس کے واقع ہونے کی آواز بہت خوفناک ہوگی۔