تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِن فَوْقِهِنَّ ۚ وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِي الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے اور زمین والوں کے گناہ بخشاتے ہیں ۔ سنتا ہے اللہ جو ہے ۔ وہی بخشنے (ف 2) والا مہربان ہے
جس کی عظمت شان سے﴿ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِن فَوْقِهِنَّ ﴾ ” قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں۔“ باوجود اپنی عظمت اور مضبوطی کے ﴿ وَالْمَلَائِكَةُ ﴾ اور مکرم و مقرب فرشتے اس کی عظمت کے سامنے سرنگوں، اس کے غلبہ کے سامنے عاجز اور اس کی ربوبیت کے سامنے مطیع اور فروتن ہیں۔ ﴿ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ﴾ ” وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں۔“ یعنی وہ اس کی تعظیم اور ہر نقص سے اس کی تنزیہ کرتے ہیں اور ہر صفت کمال سے اسے متصف قرار دیتے ہیں۔ ﴿ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِي الْأَرْضِ ﴾ ” اور جو زمین میں ہیں ان کے لئے وہ مغفرت طلب کرتے ہیں۔“ ان سے جو ایسی باتیں صادر ہوتی ہیں جو ان کے رب کی عظمت اور کبریائی کے لائق نہیں، اس پر ان کے لئے بخشش مانگتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ﴿ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴾ ” اللہ ہی بڑا بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔“ اگر اس کی مغفرت اور رحمت نہ ہوتی تو مخلوق پر فوراً عذاب بھیج دیتا جو ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اس امر کا ذکر کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء و مرسلین کی طرف عام طور پر اور نبی مصطفی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خاص طور پر وحی بھیجی، ان اوصاف سے اپنے آپ کو موصوف کرنے میں، اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس قرآن کریم میں ایسے دلائل و براہین ہیں جو اللہ تعالیٰ کے کمال، اس کے ان اسمائے عظیم سے اپنے آپ کو موصوف کرنے پر دلالت کرتے ہیں جو اس بات کے موجب ہیں کہ قلوب اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کی محبت، اس کی تعظیم اور اس کے جلال و اکرام سے لبریز ہوں، اپنی تمام ظاہری اور باطنی عبودیت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوں۔