وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ
اور نیکی اور بدی برابر نہیں ۔ بدی کو اس خصات سے جو بہت اچھی ہو دفع کر (یعنی ) بدی کے جواب میں اس سے بہتر سلوک کرتا ، کہ یکایک وہ شخص جس کو تجھ سے روادت سے ایسا ہوجائیگا کہ گویا وہ رشتہ دار دوست ہے
﴿ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ﴾” نیکی اور بدی یکساں نہیں ہوسکتیں“ یعنی نیکی اور اطاعت کا فعل جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر سرانجام دیا گیا اور بدی اور گناہ کا فعل جس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہو کبھی برابر نہیں ہوسکتے مخلوق کے ساتھ حسن سلوک اور مخلوق کے ساتھ برا سلوک دونوں برابر نہیں ہوسکتے اپنی ذات میں برابر ہوسکتے ہیں نہ اپنے اوصاف میں اور نہ اپنی جزا میں۔ فرمایا ﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾(الرحمٰن:55؍60)” نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں۔ “ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے احسان خاص کا ذکر فرمایا جس کا بڑا مقام ہے اور وہ ہے اس شخص کے ساتھ احسان کرنا جس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا اس لیے فرمایا ﴿ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾” آپ( بدی کا) اسی بات سے دفاع کیجیے جو اچھی ہو“ یعنی جب کبھی لوگوں میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ براسلوک کرے، خاص طور پر وہ شخص جس کا آپ پر بہت بڑا حق ہے مثلاً عزیز و اقارب اور دوست احباب وغیرہ۔ یہ برا سلوک قول کے ذریعے سے ہو یا فعل کے ذریعے سے اس کا مقابلہ ہمیشہ حسن سلوک سے کریں۔ اگر اس نے آپ سے قطع رحمی کی ہے تو آپ اس سے صلہ رحمی کریں اگر وہ آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کریں۔ اگر وہ آپ کے بارے میں آپ کی موجودگی یا غیر موجودگی میں کوئی بات کہے تو آپ اس کا مقابلہ نہ کریں بلکہ اس کو معاف کردیں اور اس کے ساتھ انتہائی نرمی سے بات کریں۔ اگر وہ آپ سے بول چال چھوڑ دے تو آپ اس سے اچھی طرح بات کریں اور اسے کثرت سے سلام کریں۔ جب آپ اس کی برائی کے بدلے حسن سلوک سے پیش آئیں گے تو آپ کو عظیم فائدہ حاصل ہوگا ۔﴿فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾’’کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمھارا گرم جوش دوست ہے۔“ یعنی گویا کہ وہ قریبی اور انتہائی مشفق ہے۔