وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اور وہ ثمود تھے انہیں ہم نے ہدایت کی سو انہوں نے ہدایت پر اندھا رہنا پسند کیا ۔ پھر انہیں ان کی بداعمالیوں کے سبب جو وہ کرتے (ف 1) تھے ذلت کے عذاب کی کڑکوں نے آپکڑا
﴿وَأَمَّا ثَمُودُ﴾ اور رہے ثمود تو یہ ایک معروف قبیلہ ہے جو حجر اور اس کے اردگرد کے علاقے میں آباد تھا۔ جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا جو ان کو ان کے رب کی توحید کی دعوت دیتے تھے اور ان کو شرک سے روکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو معجزے کے طور پر اونٹنی عطا کی، جس کے لئے پانی پینے کا ایک دن مقرر تھا۔ ثمود کے لوگ ایک دن اس اونٹنی کا دودھ پیتے تھے اور ایک دن پانی پیتے تھے اور اس پر انہیں کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا تھا بلکہ اونٹنی اللہ کی زمین پر چر کر گزارہ کرتی تھی، اس لئے ثمود کے بارے میں فرمایا : ﴿وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ﴾ ” جو ثمود تھے، ہم نے انہیں سیدھا راستہ دکھایا۔‘‘ یہاں ہدایت سے مراد ہدایت بیان ہے۔ ہرچند کہ ہلاکت کا شکار ہونے والی تمام امتوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوئی اور راہ راست ان کے سامنے واضح کردی گئی، مگر اللہ تعالیٰ نے ثمود کے لئے ہدایت کا ذکر اس لئے کیا، کیونکہ ان کو بہت بڑا معجزہ عطا کیا گیا تھا۔ اس معجزے کو ان کے بچوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہدایت اور بیان کا خاص طور پر ذکر فرمایا، مگر انہوں نے اپنے شر اور ظلم کی وجہ سے ہدایت، یعنی علم و ایمان کی بجائے، اندھے پن، یعنی کفر اور گمراہی کو پسند کیا تو جو کچھ وہ کمایا کرتے تھے اس کی وجہ سے انہیں عذاب نے پکڑ لیا اور ان پر اللہ تعالیٰ کا ظلم نہ تھا۔