سورة غافر - آیت 25

فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْحَقِّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ ۚ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر جب ہمارے پاس سے حق بات لے کر (موسیٰ) ان کے پاس پہنچا تو وہ بولے کہ جو لوگ موسیٰ کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کے لڑکوں کو قتل کرو اور ان کی لڑکیوں کو جیتا رکھو اور کافروں کا جو داؤ ہوتا ہے سو غلط ہوتا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْحَقِّ مِنْ عِندِنَا ﴾ ” پس جب وہ ہماری طرف سے حق لے کر ان کے پاس آئے“ اور اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے معجزات کے ذریعے سے حضرت موسیٰ کی تائید فرمائی جو مکمل اطاعت کے موجب تھے، مگر انہوں نے اطاعت نہ کی۔ انہوں نے مجرد ترک اطاعت اور روگردانی کرتے ہوئے ان کے انکار اور باطل کے ذریعے سے ان کی مخالفت ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ ان کی جرأت کا یہ حال تھا کہ کہنے لگے : ﴿اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ ﴾ ” جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کردو اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دو اور نہیں ہے کافروں کی چال“ وہ یہ سازش کرنے ہی والے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ ان کے بیٹوں کو قتل کردیں گے تو یہ طاقتور نہیں ہوسکیں گے اور یہ ان کی غلامی میں مطیع بن کر رہیں گے لہٰذا نہ ہوئی ان کی چال ﴿إِلَّا فِي ضَلَالٍ﴾ ” مگر ناکام“ کیونکہ ان کا مقصد پورا نہیں ہوا تھا بلکہ انکے مقاصد کے برعکس نتیجہ حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا اور تباہ و برباد کردیا۔ قاعدہ : اس نکتے پر غور کیجیے جو کتاب اللہ میں کثرت سے پیش آتا ہے، جب آیات کریمہ کا سیاق کسی معین قصے یا معین چیز میں ہو اور اللہ تعالیٰ اس معین قصے پر کوئی حکم لگانا چاہتا ہو تو وہ اس حکم کو اس قصے کے ساتھ مختص کر کے ذکر نہیں فرماتا بلکہ اسے اس کے وصف عام پر معلق کرتا ہے تاکہ یہ حکم عام ہو اور اس میں وہ صورت بھی شامل ہو جس کے لئے کلام لایا گیا ہے اور اس معین قصے کے ساتھ حکم کے اختصاص کی بنا پر پیدا ہونے والا وہم ختم ہوجائے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے (وَمَا کْیدَھُمْ اِلّاَ فِی ضَلَالٍ) نہیں کہا بلکہ فرمایا : ﴿وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ﴾