وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور خدا بدر کی لڑائی میں جب تم ذلیل تھے تمہاری مدد کرچکا ہے سو اللہ سے ڈرو ، شائد کہ تم شکر گزار ہو ۔ (ف ١)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو اپنا احسان یاد دلایا ہے، اور انہیں اپنی وہ مدد یا ددلائی ہے جو بدر کے موقع پر ہوئی۔ جب وہ کمزور تھے، ان کی تعداد بھی کم تھی، اور سامان بھی۔ جبکہ دشمنوں کی تعداد اور سامان جنگ کی مقدار بہت زیادہ تھی۔ غزوہ بدر ہجرت کے دوسرے سال واقع ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے تین سو دس سے چند افراد زیادہ کی تعداد میں اپنے صحابہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ ان کے پاس صرف ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے۔ آپ قریش کے تجارتی قافلہ کے تعاقب میں نکلے تھے۔ جو شام سے آرہا تھا۔ مشرکین کو اطلاع ملی تو وہ اپنے قافلے کو بچانے کے لیے پوری طرح تیار ہو کر مکہ مکرمہ سے نکلے۔ وہ تقریباً ایک ہزار جنگ جو تھے جن کے پاس مکمل سامان رسد، بکثرت ہتھیار اور بہت سے گھوڑے موجود تھے۔ ان کا مسلمانوں سے آمنا سامنا ایک چشمے کے پاس ہوا، جسے ” بدر“ کہتے تھے۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ جنگ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عظیم مدد فرمائی۔ چنانچہ انہوں نے مشرکین کے ستر بہادر سردار قتل کئے اور ستر کو جنگی قیدی بنایا اور ان کی لشکر گاہ پر قبضہ کرلیا۔ جیسے سورۃ انفال میں انشاء اللہ بیان ہوگا۔ اس کی تفصیل کا اصل مقام وہی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر صرف اس لیے کیا ہے کہ مسلمان اس سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور اس کا شکر کریں۔ اس لیے فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾ ” اللہ ہی سے ڈرو، تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ“ کیونکہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے وہی اس کا شکر ادا کرتا ہے۔ جو تقویٰ ترک کردیتا ہے، وہ شکر گزار نہیں ہوتا۔