أَن تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّهِ وَإِن كُنتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ
ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص کہنے لگے کہ اے افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے خدا کے حق میں کی ، اور البتہ میں ٹھٹھا کرنے والوں میں ہی رہا
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ڈراتے ( اور ان کی خیر خواہی کرتے) ہوئے فرمایا : ﴿أَن ﴾ کہ وہ اپنی غفلت پر نہ جمے رہیں یہاں تک کہ وہ دن آجائے جس دن انہیں نادم ہونا پڑے اور اس دن ندامت کسی کام نہیں آئے گی۔ اور ﴿تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللّٰـهِ﴾ ”کوئی نفس کہے : اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے اللہ کے حق میں کی۔“ ﴿ وَإِن كُنتُ﴾’’بے شک میں تو تھا“ دنیا میں ﴿ لَمِنَ السَّاخِرِينَ ﴾ ” مذاق اڑانے والوں میں سے“ یعنی وہ دنیا میں جزا و سزا کا تمسخر اڑایا کرتا تھا، یہاں تک کہ میں نے اسے عیاں(آنکھوں سے) دیکھ لیا۔