مَثَلُ مَا يُنفِقُونَ فِي هَٰذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
ان کی مثال جو اس دنیوی زندگی میں (محض نفسانیت کے لئے) خرچ کرتے ہیں ‘ اس ہوا کی مثال ہے جس میں پالا ہے ۔ وہ پہنچی ان کے کھیت پر جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اس نے کھیت نیست وتابود کردیا ، اور خدا نے ان پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ اپنی جانوں پر خود ظلم کرتے ہیں (ف ١)
پھر اللہ نے کافروں کے مال خرچ کرنے کے بارے میں ایک مثال بیان فرمائی، کہ وہ لوگ مال خرچ کر کے اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، تو یہ کوششیں ناکام رہیں گی، جیسے کوئی شخص فصل بوئے اسے اس کا نتیجہ ملنے اور اس سے پیداوار حاصل ہونے کی امید ہو، اچانک کھیتی پر ایک سخت ٹھنڈی ہوا چلے، جس سے کھیتی تباہ ہوجائے۔ اس کے حصے میں صرف محنت، مشقت اور حسرت و افسوس ہی آئے۔ کافروں کا بھی یہی حال ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا:﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ﴾ (الانفال :8؍36) ” بے شک کافر اپنے مال اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، یہ خرچ کریں گے، پھر یہ ان کے لیے حسرت کا باعث بن جائیں گے، پھر یہ مغلوب ہوجائیں گے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّـهُ ﴾ ” اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا۔“ کہ ان کے عمل ضائع کردیے۔ ﴿وَلَـٰكِنْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾” بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔“ وہ اس طرح کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا، اس کے رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش کی۔ ان بداعمالیوں کی وجہ سے ان کی نیکیاں ضائع ہوگئیں اور مال تباہ ہوگئے۔