سورة آل عمران - آیت 103

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تم سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو ، اور خدا کا احسان جو اس نے تم پر کیا ہے ‘ یاد کرو جبکہ تم آپس میں دشمن تھے (یعنی تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی اور اب اس کے فضل سے بھائی ہوگئے ، اور تم ایک آگ کے گڑے کے کنارہ پر تھے ، سو خدا نے تمہیں اس سے بچایا ، یوں ہی وہ اپنی آیتیں تم پر کھولتا ہے ، شاید تم ہدایت پاؤ(ف ١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

چنانچہ فرمایا : ﴿وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً ﴾” اور اللہ کی اس وقت کی نعمت یاد کرو، جب تم (یہ نعمت حاصل ہونے سے پہلے) ایک دوسرے کے دشمن تھے“ ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ ایک دوسرے کا مال چھینتے تھے، قبیلوں کی قبیلوں سے دشمنی تھی، ایک ہی شہر کے رہنے والے آپس میں عداوت اور جنگ وجدل کا شکار تھے۔ غرض بہت بری حالت تھی۔ یہ وہ حالت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث سے پہلے عرب میں عام تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور وہ لوگ ایمان لے آئے، تو وہ اسلام کی بنیاد پر اکٹھے ہوگئے، ان کے دلوں میں ایمان کی وجہ سے محبت پیدا ہوگئی۔ وہ باہمی محبت اور مدد کے لحاظ سے فرد واحد کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ﴾ اس نے تمہارے دلوں میں الف ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔“ اس کے بعد فرمایا : ﴿وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ﴾ ”اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے“ یعنی تم جہنم کے مستحق ہوچکے تھے۔ صرف اتنی کسر رہ گئی تھی کہ تمہیں موت آجائے تو جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ (فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا) ” تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا“ وہ اس طرح کہ تم پر یہ احسان کیا کہ تمہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نصیب فرما دیا۔ ﴿كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ﴾” اللہ اسی طرح تمارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے“ یعنی ان کی وضاحت اور تشریح کرتا ہے اور تمہارے لئے حق و باطل اور ہدایت و گمراہی الگ الگ کر کے واضح کردیتا ہے ﴿ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ ” تاکہ تم (حق کو پہچان کر اور اس پر عمل کر کے) ہدایت پاؤ“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ بندے دلوں اور زبانوں کے ساتھ اس کی نعمت کو یاد کریں، تاکہ ان میں شکر اور اللہ کی محبت کے جذبات پروان چڑھیں اور اللہ تعالیٰ مزید فضل و احسانات سے نوازے۔ اللہ کی جو نعمت سب سے زیادہ ذکر کئے جانے کے قابل ہے وہ ہے اسلام کا شرف حاصل ہوجانے کی نعمت، اتباع رسول کی توفیق مل جانے کی نعمت اور مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی موجودگی اور اختلاف و افتراق نہ ہونے کی نعمت۔