سورة البقرة - آیت 31

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اس نے آدم (علیہ السلام) کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر انکو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا تم مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ ، اگر تم سچے ہو ۔ (ف ٣)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر چونکہ فرشتوں کے قول میں ان کے اس خیال کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں اس خلیفہ پر فضیلت حاصل ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ فرشتوں پر آدم کی فضیلت کو واضح کردے، تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آدم کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کے کمال حکمت اور اس کے علم کو جان لیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے اسماء اور ان کے مسمی کا علم عطا کردیا۔ پس اس نے اسے اسم اور مسمی دونوں کی تعلیم دی۔ یعنی الفاظ اور معانی دونوں سکھا دئیے۔ یہاں تک کہ اسماء میں سے مکبر اور مصغر کے مابین امتیاز کو بھی واضح کردیا، مثلاً ” قَصْعَةٌ “ (پیالہ) اور ” قُصَیْعَةٌ “ (چھوٹا سا پیالہ) ﴿ثُمَّ عَرَضَهُمْ ﴾ یعنی پھر ان مسمیات کو پیش کیا۔ ﴿عَلَى الْمَلَائِكَةِ﴾” فرشتوں پر“ یعنی فرشتوں کو آزمانے کے لئے کہ آیا یہ ان مسمیات کو پہچانتے ہیں یا نہیں اور فرمایا: ﴿فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾اگر تم اپنے اس دعوے اور گمان میں سچے ہو کہ تم اس خلیفہ سے افضل ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ۔