وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ
اور جو کتاب ہم نے تیری طرف نازل کی ہے ۔ وہی حق ہے جو اس سے پہلے ہے اس کی تصدیق (ف 1) کرتی ہے ۔ بےشک اللہ اپنے بندوں سے خبردار ہے (اور) انہیں دیکھ رہا ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کتاب جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی کی ﴿هُوَ الْحَقُّ﴾ ” وہ حق ہے“ کیونکہ وہ جن امور پر مشتمل ہے وہ حق ہیں اور اس نے حق کے تمام اصولوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ گویا تمام حق صرف اسی کتاب کے اندر ہے، اس لئے تمہارے دلوں میں حق کے بارے میں کوئی تنگی نہ آئے اور تم حق سے تنگ آؤ نہ اسے ہیچ سمجھو۔ جب یہ کتاب حق ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ وہ تمام مسائل الٰہیہ اور امور غیبیہ جن پر یہ کتاب دلالت کرتی ہے واقع کے مطابق ہوں، لہٰذا یہ جائز نہیں کہ اس سے کوئی ایسی مراد لی جائے جو اس کے ظاہر اور اس چیز کے خلاف ہو جس پر اس کا ظاہر دلالت کرتا ہے۔ ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ﴾ یعنی گزشتہ کتابوں اور رسولوں کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ ان کتابوں اور رسولوں نے اس کتاب کے بارے میں پیش گوئی کی تھی اس لئے جب یہ کتاب آگئی تو اس سے ان کی صداقت ظاہر ہوگئی اور چونکہ گزشتہ کتابوں نے اس کتاب کے بارے میں پیشین گوئی کرتے ہوئے خوش خبری دی اور یہ اس پیشین گوئی کی تصدیق کرتی ہے، اس لئے کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کتب سابقہ پر ایمان لائے اور قرآن کا انکار کرے کیونکہ اس کا قرآن کو نہ ماننا، ان کتابوں پر اس کے ایمان کی نفی کرتا ہے کیونکہ ان کی جملہ خبروں میں سے ایک خبر قرآن کے بارے میں بھی ہے، نیز ان کی خبریں قرآن کی دی ہوئی خبروں کے مطابق ہیں۔ ﴿إِنَّ اللّٰـهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ ﴾ ” بے شک اللہ اپنے بندوں سے خبر دار اور دیکھنے والا ہے۔“ اس لئے وہ ہر قوم اور ہر فرد کو وہی کچھ عطا کرتا ہے جو اس کے احوال کے لائق ہے۔ سابقہ شریعتیں اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے زمانے کے لائق تھیں، اس لئے اللہ تعالیٰ رسول کے بعد رسول بھیجتا رہا یہاں تک کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلسلہ رسالت کو ختم کردیا۔ پس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ شریعت لے کر تشریف لائے جو قیامت تک کے لئے مخلوق کے تمام مصالح کے مطابق ہے اور ہر وقت ہر بھلائی کی ضامن ہے۔