فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ
پھر جب ہم نے اس پر موت کو مقرر کیا توجنوں کو اس کی موت کی خبر کسی نے نہ دی ۔ مگر گھن کے کیڑے نے کہ اس کے عصا کو کھاتا رہا ۔ پس جب وہ گرپڑا توجنوں نے جانا کہ اگر وہ غیب جانتے تو ذلت کے عذاب میں نہ رہتے
شیاطین اور جن حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے عمارتیں تعمیر کرتے رہے۔ انہوں نے انسانوں کو بہکایا اور ان پر ظاہر کیا کہ وہ غیب کا علم جانتے ہیں اور چھپی ہوئی چیزوں کی اطلاع رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ بندوں پر ان کا جھوٹ واضح کرے، لہٰذا وہ اپنا کام کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام علیہ السلام کی وفات کا فیصلہ کردیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے عصا کا سہارا لئے کھڑے تھے (اور اسی حالت میں وفات پا گئے) تو جن جب وہاں سے گزرتے تو دیکھتے کہ وہ سہارا لئے کھڑے ہیں۔ وہ انہیں زندہ سمجھتے ہوئے ان سے ڈرتے رہے۔ ایک قول کے مطابق جن سال بھر اسی طرح کام کرتے رہے حتیٰ کہ دیمک نے ان کا عصا کھانا شروع کردیا یہاں تک کہ عصا بالکل ختم ہو کر گرگیا اور اس کے ساتھ حضرت سلیمان علیہ السلام کا جسد بھی زمین پر آرہا۔ یہ دیکھ کر شیاطین آزاد ہو کر بھاگ گئے اس طرح انسانوں پر واضح ہوگیا ﴿أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ﴾ ” کہ اگر جنوں کے پاس علم غیب ہوتا تو وہ اس رسوا کن عذاب میں مبتلا نہ رہتے“ یعنی اس انتہائی سخت کام میں مصروف نہ رہتے۔ اگر ان کے پاس غیب کا علم ہوتا تو انہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے وفات پا جانے کا علم ہوتا، جو ان کی سب سے بڑی خواہش تھی تاکہ اس مشقت سے نجات پائیں۔