إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
ہم نے (ایک) امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی ۔ سو انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا ۔ اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا بےیک وہ بڑا بےترس اور بڑا نادان (ف 1) تھا
اللہ تبارک و تعالیٰ اس امانت کی عظمت بیان کرتا ہے جو اس نے مکلفین کے سپرد کی۔ اس امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کے اوامر کے سامنے سرافگندہ ہونا اور کھلے چھپے تمام احوال میں محارم سے اجتناب کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امانت کو بڑی بڑی مخلوقات، آسمان، زمین اور پہاڑوں وغیرہ کے سامنے پیش کر کے اسے قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا کہ اگر تم اسے قائم کرو گے اور اس کا جو حق ہے وہ ادا کرو گے تو تمہارے لئے ثواب ہے اور اگر تم اس کو قائم کرسکے نہ اسے ادا کرسکے تو تمہیں عذاب ملے گا۔ ﴿ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا﴾ یعنی انہوں نے اس خوف سے اس امانت کا بار اٹھانے سے انکار کردیا کہ وہ اس امانت کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ ان کا یہ انکار اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے طور پر تھا نہ اس کے ثواب میں بے رغبتی کے سبب سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امانت کو اسی شرط کے ساتھ، انسا ن کے سامنے پیش کیا تو اس نے اسے قبول کر کے اس کا بار اٹھا لیا اور اس نے اپنی جہالت اور ظلم کے باوصف اس بھاری ذمہ داری کو قبول کرلیا۔ لوگ اس امانت کو قائم رکھنے اور قائم نہ رکھنے کے لحاظ سے تین اقسام میں منقسم ہیں : (1)منافقین : جو ظاہری طور پر اس امانت کو قائم رکھتے ہیں اور باطن میں اس کو ضائع کرتے ہیں۔ (2)مشرکین : جنہوں نے ظاہری اور باطنی طور پر اس امانت کو ضائع کردیا ہے۔ (3) مومنین : جنہوں نے ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے اس امانت کو قائم کر رکھا ہے۔