وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا
اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پچھلے گھر کو چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیکوں کے لئے اجر عظیم تیار کیا ہے (ف 1)
﴿ وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ ﴾ ” اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی طلب گار ہو۔“ یعنی اگر آخرت کا گھر تمہارا مطلوب و مقصود ہے اور جب تمہیں اللہ، اس کا رسول اور آخرت حاصل ہوجائیں تو تمہیں دنیا کی کشادگی اور تنگی، اس کی آسانی اور سختی کی پروا نہ ہو اور تم اسی پر قناعت کرو جو تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے میسر ہے اور آپ سے ایسا مطالبہ نہ کرو جو آپ پر شاق گزرے ﴿ فَإِنَّ اللّٰـهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا ﴾ ” تو (جان لو) اللہ نے تم میں سے نیکوکار عورتوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے ان کے وصف احسان پر اجر مرتب کیا ہے کیونکہ اس اجر کا سبب اور موجب یہ نہیں کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں ہیں بلکہ اس کا موجب یہی وصف ہے۔ احسان کا وصف معدوم ہوتے ہوئے مجرد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں ہونا کافی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو اختیار دے دیا۔ تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے اللہ، اس کے رسول اور آخرت کو اختیار کرلیا، ان میں سے ایک بھی پیچھے نہ رہی۔ اس تخییر سے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اہتمام کرنا اور اس پر غیرت کا اظہار کرنا، آپ کا ایسے حال میں ہونا کہ آپ کی ازواج مطہرات کے بہت سے دنیاوی مطالبات کا آپ پر شاق گزرنا۔ (2) اس تخییر کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات کے حقوق کے بوجھ سے سلامت ہونا، اپنے آپ میں آزاد ہونا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہیں تو عطا کریں اور اگر چاہیں تو محروم رکھیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ مَّا كَانَ عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيمَا فَرَضَ اللّٰـهُ لَهُ ﴾ (الاحزاب : 33؍38) ” نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی حرج نہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کردیا۔ “ (3) اللہ تعالیٰ کے رسول کا ان امور سے منزہ ہونا جو اگر ازواج مطہرات میں ہوتے، مثلاً اللہ اور اس کے رسول پر دنیا کو ترجیح دینا۔۔۔ تو آپ ان کے قریب نہ جاتے۔ (4) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کا گناہ اور کسی ایسے امر سے تعرض سے سلامت ہونا جو اللہ اور اس کے رسول کی ناراضی کا موجب ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس تخییر کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کی ناراضی کو ختم کردیا، جو آپ کی ناراضی کا موجب تھی، آپ کی ناراضی اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی عذاب کی موجب ہے۔ (5) ان آیات کریمہ سے، ازواج مطہرات کی رفعت، ان کے درجات کی بلندی اور ان کی عالی ہمتی کا اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے دنیا کے چند ٹکڑوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو اپنا مطلوب و مقصود اور اپنی مراد بنایا۔ (6) ازواج مطہرات کا اس اختیار کے ذریعے سے ایک ایسے معاملے کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہونا جو جنت کے درجات تک پہنچاتا ہے، نیز اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ تمام ازواج مطہرات دنیا و آخرت میں آپ کی بیویاں ہیں۔ (7) اس آیت کریمہ سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور آپ کی ازواج مطہرات کے درمیان کامل مناسبت کا اظہار ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل ترین ہستی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ آپ کی ازواج مطہرات بھی کامل اور پاک عورتیں ہوں۔ ﴿وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ﴾ (النور : 24؍26)” اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ “ (9)یہ تخییر قناعت کی داعی اور اس کی موجب ہے۔ جس سے اطمینان قلب اور انشراح صدر حاصل ہوتا ہے، لالچ اور عدم رضا زائل ہوجاتے ہیں جو قلب کے لیے قلق، اضطراب اور غم کا باعث ہوتے ہیں۔ (9)ازواج مطہرات کا آپ کو اختیار کرنا، ان کے اجر میں کئی گنا اضافے کا سبب ہے، نیز یہ کہ وہ ایک ایسے مرتبے پر فائز ہیں جس میں دنیا کی کوئی عورت شریک نہیں۔