سورة الأحزاب - آیت 19

أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(وہ) تم مسلمانوں کے ساتھ بخل کرتے ہیں پھر جب ڈر کا وقت آتا ہے تو تو ان کو دیکھتا ہے وہ تیری طرف تکتے ہیں ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح پھرتی ہی جس پر موت (ف 1) کی بےہوشی طاری ہو ۔ پھر جب خوف چلاجاتا ہے تو مال غنیمت پر بخیلی کرتے ہوئے تیز زبانوں سے چڑھ چڑھ بولتے ہیں ۔ وہی ہیں جو ایمان لائے ۔ سو اللہ نے ان کے عمل اکارت کردیئے ۔ اور یہ اللہ پر آسان ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ﴾ ” تمہارے بارے میں بخل کرتے ہیں۔“ یعنی لڑائی کے وقت اپنے بدن کو استعمال کرنے اور جہاد میں اپنا مال خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں۔ پس وہ اپنی جان اور مال کے ذریعے سے اللہ کے راستے میں جہاد نہیں کرتے۔ ﴿ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ ﴾ ” جب خوف (کا وقت) آیا تو آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں“ اس آدمی کی طرح جس پر غشی طاری ہو ﴿ مِنَ الْمَوْتِ ﴾ ” موت کی وجہ سے“ یعنی سخت بزدلی کی وجہ سے، جس نے ان کے دلوں کو نکال پھینکا ہے، اس قلق کی بنا پر جس نے ان کو بے سدھ کردیا ہے اور اس قتال سے خوف کے مارے جس پر انہیں مجبور کیا جا رہا ہے اور جسے وہ ناپسند کرتے ہیں۔ ﴿ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ ﴾ ” پس جب خوف جاتا رہتا ہے“ اور امن و اطمینان کی حالت میں ہوتے ہیں ﴿ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ ﴾ ” تو تمہارے بارے میں زبان درازی کرتے ہیں۔“ یعنی جب آپ لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں تو آپ سے سخت زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں جو صحیح نہیں ہوتے۔ جب آپ ان کی باتیں سنتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ بہت بہادر اور شجاعت مند ہیں۔ ﴿أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ﴾ ” اور مال میں بخل کرتے ہیں“ جو کہ ان سے مطلوب ہے۔ یہ انسان کا بدترین وصف ہے کہ اسے جو حکم دیا جائے اس کی تعمیل میں بخل سے کام لے، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے میں بخل کرے، اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے اور اللہ کے راستے میں دعوت دینے میں اپنے بدن میں بخل کرے، اپنے جاہ میں بخیل ہو اور اپنے علم، خیر خواہی کرنے اور اپنی رائے میں بخیل ہو۔ ﴿ أُولَـٰئِكَ ﴾ ” یہ لوگ“ جو اس حالت میں بھی ﴿ لَمْ يُؤْمِنُوا ﴾ ” ایمان نہ لائے“ تو ان کے عدم ایمان کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال اکارت کردیے ﴿ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰـهِ يَسِيرًا ﴾ ” اور یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔“ رہے اہل ایمان، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو نفس کے بخل سے محفوظ رکھا ہے۔ انہیں اپنی توفیق سے سرفراز فرمایا اس لیے انہیں جس چیز کے خرچ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے وہ اسے خرچ کرتے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں اور اس کے کلمے کو بلند کرنے کی خاطر اپنا بدن خرچ کرتے ہیں، بھلائی کے راستوں میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں، اپنی جاہ اور اپنا علم خرچ کرتے ہیں۔