سورة لقمان - آیت 26

لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کا ہے ۔ بےشک اللہ ہی بےپروا قابل تعریف (ف 2) ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی وسعت اوصاف کے نمونے کے طور پر ان دو آیتوں کا ذکر فرمایا تاکہ وہ اپنے بندوں کو اپنی معرفت، محبت اور دین میں اخلاص کی دعوت دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی عمومی ملکیت کا ذکر کیا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے۔۔۔ یہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی کو شامل ہے۔۔۔ سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ وہ احکام کو نی و قدری، احکام دینی و امری اور احکام جزای کے ذریعے سے ان میں تصرف کرتا ہے۔ پس تمام مخلوق اس کی مملوک ہے جو اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہے اور وہ کسی چیز کی مالک نہیں۔ وہ بے حد بے نیاز ہے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں جس کی مخلوق محتاج ہوتی ہے۔ ﴿ مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ ﴾ (الذّٰریٰت : 51؍57) ” میں ان سے رزق طلب نہیں کرتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔“ نیز انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کے اعمال اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ ان کے اعمال کا فائدہ صرف انہی کو پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے اور ان کے اعمال سے بے نیاز ہے۔ یہ اس کی بے نیازی ہے کہ اس نے انہیں ان کی دنیا و آخرت میں بے نیاز بنا دیا اور ان کے لیے وہ کافی ہوگیا۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی وسعت حمد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ اس کی حمد و ثنا اس کی ذات کا لازمہ ہے وہ ہر لحاظ ہی سے قابل تعریف ہے۔ وہ اپنی ذات میں اور اپنی صفات میں قابل تعریف ہے۔ اس کی صفات میں سے ہر صفت کامل ترین حمد و ثنا کی مستحق ہے کیونکہ یہ عظمت و کمال پر مبنی صفات ہیں۔ اس کے تمام افعال اور اس کی تمام تخلیقات قابل تعریف اور اس کے تمام اوامر و نواہی قابل ستائش ہیں وہ تمام فیصلے اور احکام جو اس نے دنیا و آخرت میں اپنے بندوں پر اور بندوں کے درمیان نافذ کیے ہیں، ان پر وہ قابل حمد و ستائش ہے۔