وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
اور جس نے اپنا منہ اللہ کی طرف متوجہ کیا اور وہ نیک ہے تو اس نے مضبوط کڑا پکڑ لیا اور ہر کام کا انجام خدا کی ہی طرف ہے
﴿ وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللّٰـهِ ﴾ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے اور اس کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے شریعت پر عمل پیرا ہوتا ہے ﴿ وَهُوَ مُحْسِنٌ ﴾ تو وہ اسلام میں محسن ہے کیونکہ اس کا عمل شرعی ہے اور وہ اس میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرتا ہے، یا اس کا معنی یہ ہے کہ جو کوئی عبادات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اور وہ اپنی عبادات کو احسان کے درجہ تک لے جاتا ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرتا ہے گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ کیفیت پیدا نہیں کرسکتا تو وہ اس طرح عبادت کرتا ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ اس کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے حقوق قائم کرکے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے اور ان کے حقوق ادا کرتا ہے۔۔۔ تینوں معانی میں تلازم پایا جاتا ہے اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں سوائے اس پہلو سے کہ دونوں لفظوں کے مورد میں اختلاف ہے ورنہ قبول کرنے اور تکمیل کے لحاظ سے، تمام معانی، دین کے تمام قوانین اور اصولوں کو قائم کرنے پر متفق ہیں۔ جو کوئی ان امور پر عمل پیرا ہوا تو ﴿ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ﴾ ” اس نے مضبوط سہارے کو تھام لیا۔“ یعنی جس نے وہ سہارا تھام لیا جو بھروسے کے قابل تھا، وہ نجات پا گیا اور ہلاکت سے بچ گیا اور ہر بھلائی سے بہرہ ور ہوا اور جس نے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا یا اس نے ” احسان“ سے کام نہ لیا تو اس نے بھروسے کے قابل سہارے کو نہ تھاما اور جب اس نے اس قابل اعتماد سہارے کو نہ تھاما تو وہاں ہلاکت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ﴿ وَإِلَى اللّٰـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ﴾ اور تمام معاملات کا مرجع و منتہا اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ وہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ وہ ان کے اعمال کے تقاضوں اور ان کے انجام کے مطابق ان کو جزا و سزا دے گا، لہٰذا اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔