يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
بیٹے نماز (ف 2) پڑھا کر اور بھلائی کا حکم دے ۔ اور برائی سے منع کرو اور جو تجھ پر پڑے اس پر صبر کر بےشک یہ ہمت کے کام ہیں
.﴿ يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ﴾” اے بیٹے! نماز کی پابندی کر۔“ آپ نے اسے نماز کی ترغیب دی اور نماز کو اس لیے مختص کیا کہ یہ سب سے بڑی بدنی عبادت ہے۔ ﴿وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ ﴾ ” اور نیک کاموں کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کر۔“ یہ حکم اوامر و نواہی کی معرفت کو مستلزم ہے تاکہ معروف کا حکم دیا جائے اور نواہی سے روکا جائے، نیز یہ ایسے امر کا حکم ہے جس کے بغیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تکمیل ممکن نہیں، مثلاً نرمی اور صبر وغیرہ۔ اگلے جملے میں صراحت کے ساتھ فرمایا : ﴿وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ﴾ ” اور اس تکلیف پر صبر کر جو تجھے پہنچے۔ “ یہ آیات کریمہ اس بات پر دال ہیں کہ نیکی پر عمل کرکے اور برائی کو ترک کرکے خود اپنی ذات کی تکمیل کی جائے پھر نیکی کا حکم دے کر اور برائی سے روک کر دوسروں کی تکمیل کی جائے۔ چونکہ یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ جب بندہ نیکی کا حکم دے گا اور برائی سے روکے گا تو لامحالہ اسے آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا نیز اس راستے میں نفس کو مشقت بھی اٹھانا پڑتی ہے اس لیے اس کو اس پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذٰلِكَ ﴾ ” اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا، بے شک یہ بات“ جس کی لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کی ہے ﴿مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ﴾ ایسے امور میں سے ہے جن کا عزم کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے اور صرف اولولعزم لوگوں کو اس کی توفیق عطا ہوتی ہے۔