سورة لقمان - آیت 6

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور آدمیوں میں کوئی ہے کہ کھیل کی بات خریدتا ہے ، تاکہ خدا کی راہ سے بےسمجھے (ف 2) گمراہ کرے اور اسے ٹھٹھے میں اڑائے ایسوں ہی کو ذلت (ف 1) کا عذاب ہوگا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن﴾ ” اور لوگوں میں سے جو“ اللہ تعالیٰ کی تائید سے محروم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے ﴿ يَشْتَرِي﴾ ” خریدتا ہے“ یعنی جو اختیار کرتا ہے اور لوگوں کو اس میں خرچ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ﴿ لَهْوَ الْحَدِيثِ﴾ ” لغو باتیں“ یعنی دلوں کو غافل کرنے اور ان کو جلیل القدر مقاصد سے روکنے والے قصے کہانیاں۔ اس آیت کریمہ میں ہر محرم کلام، ہر قسم کی لغویات، ہر قسم کے باطل ہذیانی اقوال جو کفر و فسوق اور عصیان کی ترغیب دیتے ہیں، ان لوگوں کے نظریات جو حق کو ٹھکراتے ہیں اور باطل دلائل کے ساتھ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جھگڑتے ہیں، غیبت، چغلی، جھوٹ، سب و شتم، شیطانی گانا بجانا اور غفلت میں مبتلا کرنے والے قصے کہانیاں، جن کا دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں، داخل ہیں۔ لوگوں کی یہ صنف ہدایت کی باتوں کو چھوڑ کر کھیل تماشوں پر مشتمل قصے کہانیاں خریدتی ہے۔ ﴿لِيُضِلَّ﴾ تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ﴿عَن سَبِيلِ اللّٰـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ ” بغیر علم کے اللہ کی راہ سے“ یعنی اپنے فعل میں خود گمراہی کا راستہ اختیار کرکے دوسروں کو گمراہ کرتا ہے۔ اس کا گمراہ کرنے کا عمل خود اس کی اپنی گمراہی سے جنم لیتا ہے۔ اس کا اس لہو الحدیث سے گمراہ کرنے سے مراد فائدہ مند بات، عمل نافع، حق مبین اور صراط مستقیم سے روکنا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت تک اس کے لیے تکمیل نہیں پاتا جب تک کہ وہ ہدایت اور حق میں (جسے اللہ تعالیٰ کی آیات لے کر آئی ہیں) جرح و قدح نہیں کرتا اور اللہ کی آیات کا مذاق نہیں اڑاتا یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور ان کو لانے والے کا تمسخر اڑاتا ہے۔ جب ایسے شخص میں باطل کی مدح، اس کی ترغیب، حق میں جرح و قدح، حق اور اہل حق کے ساتھ استہزاء و تمسخر اکٹھے ہوجاتے ہیں تو وہ بے علم آدمی کو گمراہ کرتا ہے اور اسے ایسی بات بیان کرکے دھوکا دیتا ہے، جس میں گمراہ شخص امتیاز کرسکتا ہے نہ اس کی حقیقت معلوم کرسکتا ہے ﴿ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾ ” ان کے لیے رسوا کن عذاب ہے“ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ گمراہ ہوئے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ استہزا کیا اور واضح حق کی تکذیب کی۔