سورة الروم - آیت 28

ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ ۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(اے اہل مکہ) اللہ نے تمہارے ہی اندر سے تمہارے لئے ایک مثال بیان کی ہے کہ جو ہم نے تجھے رزق دیا (ف 2) ہے کیا اس میں تمہاری باندی غلاموں میں سے جو تمہارے ہاتھ کا مال ہیں کوئی تمہارے شریک ہیں ایسے کہ تم اس رزق میں برابر ہو کہ ان میں بھی ایسا ہی ڈرو جیسا اپنوں سے ڈرتے ہو ۔ یوں ہم ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں پتے کھولتے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرک کی قباحت اور برائی واضح کرنے کے لیے تمہارے اپنے نفوس سے مثال دی ہے جس کو سمجھنے کے لیے سفر کرنے اور سواریاں کسنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ﴿هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾ ” کیا تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے کوئی ایسا ہے جسے تم اپنے رزق میں شریک کرسکو“ جن کے بارے میں تمہارا خیال ہو کہ وہ تمہارے برابر ہیں ﴿تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ﴾ ” تم ان سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو؟“ یعنی جس طرح حقیقی آزاد شریک اور اس کی تقسیم سے خوف آتا ہے کہ کہیں وہ تمام مال اپنے لیے مختص نہ کرلے۔ معاملہ ایسے نہیں کیونکہ تمہارے غلاموں میں سے کوئی غلام تمہارے اس رزق میں شریک نہیں بن سکتا جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کیا ہے۔۔۔ حالانکہ تم نے ان کو پیدا کیا ہے نہ تم ان کو رزق دیتے ہو، نیز وہ بھی تمہاری طرح مملوک ہیں۔۔۔ پھر کیونکر تم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اس کا شریک بنانے پر راضی ہوتے ہو اور اس کو عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ہم مرتبہ اور اس کے برابر قرار دیتے ہو، حالانکہ تم اپنے غلاموں کو اپنے برابر قرار دینے پر راضی نہیں ہو۔ یہ سب سے زیادہ عجیب چیز ہے اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتا ہے اس کی سفاہت و حماقت پر سب سے بڑی دلیل ہے، نیز اس نے جس چیز کو معبود بنایا ہے وہ باطل اور کمزور ہے وہ اللہ تعالیٰ کے برابر نہیں ہوسکتی اور نہ وہ کسی قسم کی عبادت کی مستحق ہے۔ ﴿كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ﴾ ” ہم اسی طرح آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں“ مثالوں کے ذریعے سے ﴿لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴾ ” ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔“ جو حقائق میں غور کرکے ان کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ رہا وہ شخص جو عقل سے کام نہیں لیتا اگر اس کے سامنے آیات کو کھول کھول کر بیان کردیا جائے اور دلائل کو واضح کردیا جائے تو اس کے پاس اتنی عقل ہی نہیں کہ اس کے ذریعے سے بات کی توضیح و تبیین کو سمجھ سکے۔۔۔ عقل مند لوگوں ہی کے سامنے کلام پیش کیا جاتا ہے اور انہیں خطاب کیا جاتا ہے۔