أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنفُسِهِم ۗ مَّا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ
کیا انہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے درمیان ہے اس کو ٹھیک سادت کر اور مدت مقرر (ف 1) کے لئے پیدا کیا ہے ! اور بہت لوگ اپنے رب کی ملاقات سے منکر ہیں
کیا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی ملاقات کو جھٹلانے والوں نے کبھی غور نہیں کیا ﴿ فِي أَنفُسِهِم﴾ ” اپنے آپ پر؟“ کیونکہ خود ان کی ذات میں نشانیاں ہیں جن کے ذریعے سے وہ اس حقیقت کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں کہ وہ ہستی جو انہیں عدم سے وجود میں لائی وہ عنقریب اس کا اعادہ کرے گی، وہ ہستی جس نے انہیں نطفہ، جمے ہوئے خون اور گوشت کی بوٹی کے مراحل سے گزار کر آدمی بنایا، پھر اس میں روح پھونکی، پھر اسے بچہ بنایا، اس بچے سے اسے جوان بنایا، پھر اسے بڑھاپے میں منتقل کیا اور پھر اسے انتہائی بڑھاپے کی طرف لے گیا۔ اس ہستی کے شایان شان نہیں کہ وہ ان کو مہمل اور بے کار چھوڑ دے کہ انہیں کسی چیز کا حکم دیا جائے نہ کسی چیز سے روکا جائے اور انہیں نیکی پر ثواب دیا جائے نہ بدی پر سزا دی جائے۔ ﴿مَّا خَلَقَ اللّٰـهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ﴾ ” اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کو حق کے ساتھ پیدا کیا“ تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ ﴿ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ﴾ ” اور وہ وقت مقرر تک۔“ یعنی زمین و آسمان کی مدت اس وقت تک ہے جب تک کہ دنیا کی مدت ختم ہو کر قیامت قائم نہیں ہوجاتی، تب یہ زمین و آسمان بدل کر کوئی اور ہی آسمان و زمین بن جائیں گے۔ ﴿وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ﴾ ” اور وہ بلاشبہ بہت سے لوگ اپنے رب سے ملنے کے قائل ہی نہیں۔“ اسی لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی تیاری کی نہ انہوں نے ان رسولوں کی تصدیق کی جنہوں نے قیامت کے قائم ہونے کی خبر دی تھی۔ ان کے اس کفر پر کوئی دلیل نہیں بلکہ اس کے برعکس قطعی دلائل قیامت اور جزا و سزا کے اثبات پر دلالت کرتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں تنبیہ کی کہ وہ زمین میں چل پھر کر دیکھیں اور ان لوگوں کے انجام پر غور کریں جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور ان کے حکم کی مخالفت کی۔ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے اور ان سے زیادہ شان دار آثار چھوڑ گئے، مثلاً انہوں نے محلات اور کارخانے بنائے، باغات اور کھیتیاں اگائیں اور نہریں کھودیں۔ مگر جب انہوں نے اپنے رسولوں کی، جو حق پر اور اپنی دعوت کی صحت پر واضح دلائل لے کر آئے تھے، تکذیب کی تو ان کی قوت ان کے کسی کام آئی نہ ان آثار نے انہیں کوئی فائدہ دیا۔۔۔ کیونکہ جب وہ ان کے آثار دیکھیں گے تو وہ دیکھیں گے کہ وہ قومیں ہلاک ہو کر صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں، ان کے مسکن غیر آباد پڑے ہیں اور وہ مسلسل مخلوق کی مذمت کا نشانہ ہیں۔ یہ تو اس دنیا کی سزا ہے جو اخروی عذاب کی تمہید ہے۔ ان ہلاک شدہ قوموں کو ہلاک کرکے اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا اور اپنی ہلاکت کے اسباب مہیا کیے۔