سورة العنكبوت - آیت 43

وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور یہ مثالیں ہیں ف 2 جنہیں ہم آدمیوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور ان کو صرف وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھتے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ﴾ ” اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ مثالیں لوگوں کے فائدے اور ان کی تعلیم کی خاطر بیان کی ہیں کیونکہ ضرب الامثال علوم کو توضیح کے ساتھ بیان کرنے کا طریقہ ہے۔ ضرب الامثال کے ذریعے سے امور عقلیہ کو امورحسیہ کے قریب لایا جاتا ہے اور مثالوں کے ذریعے سے معانی مطلوبہ واضح ہوجاتے ہیں۔ ﴿ وَمَا يَعْقِلُهَا ﴾ مگر اس میں غور و فکر کے بعد اس میں وہی لوگ فہم حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے قلب میں عقل کے ساتھ وہی لوگ اس کی تطبیق کرتے ہیں،﴿ إِلَّا الْعَالِمُونَ ﴾ جو حقیقی اہل علم ہیں اور علم ان کے قلب کی گہرائیوں میں جاگزیں ہے۔ یہ ضرب الامثال کی کی مدح و توصیف ہے نیز ان میں تدبر کرنے اور ان کو سمجھنے کی ترغیب اور جو کوئی ان میں سمجھ پیدا کرتا ہے اس کی مدح و ثنا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضرب الا مثال استعمال کرنے والا شخص اہل علم میں سے ہے اور نیز جو ان کو نہیں سمجھتا وہ اہل علم میں شمار نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو امثال بیان کی ہیں وہ بڑے بڑے امور مطالب عالیہ اور مسائل جلیلہ میں بیان کی ہیں اہل علم جانتے ہیں کہ ضرب الامثال دیگر اسالیب بیان سے زیادہ اہم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کو در خور اعتناء قرار دیا ہے اور اپنےبندوں کو ترغیب دی ہے کہ وہ ان میں غور و فکر کریں اور ان کی معرفت حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں۔ رہا وہ شخص جو ضرب لامثال کی اہمیت کے باوجو ان کو نہیں سمجھتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اہل علم میں سے نہیں ہے کیونکہ جب وہ نہایت اہم مسائل کی معرفت نہیں رکھتا تو غیر اہم مسائل میں اس کی عدم معرفت زیادہ اولیٰ ہے بنابریں اللہ تمارک و تعالیٰ نے زیادہ تر اصول دین وغیرہ میں ضرب الامثال استعمال کی ہیں۔