سورة القصص - آیت 75

وَنَزَعْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا فَقُلْنَا هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوا أَنَّ الْحَقَّ لِلَّهِ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ہر امت میں سے ایک گواہ کھینچ لیں گے ۔ پھر کہیں گے کہ اپنی سند (ف 1) لاؤ۔ تب کہیں گے کہ حق بجانب خدا ہے ۔ اور جو باتیں وہ جوڑتے تھے ۔ اس سے گم ہوجائیں گی

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب یہ مشرکین اور ان کے معبود ان باطل اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ﴿ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا﴾ ” ہر امت میں سے ایک گواہ“ یعنی جھٹلانے والی ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کرے گا جو دنیا میں ان کے کرتوتوں، ان کے شرک اور ان کے اعتقادات پر گواہی دے گا اور یہ منتخب لوگ ہوں گے یعنی ہم جھٹلانے والوں کے سرداروں میں سے کچھ لوگوں کو منتخب کرلیں گے جو اپنی طرف سے اور اپنے بھائیوں کی طرف سے جھگڑیں گے کیونکہ وہ ایک ہی راستے پر چلتے رہے ہیں اور جب وہ محاکمہ کے لئے سامنے آئیں گے ﴿فَقُلْنَا هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ﴾ ” تو ہم (ان سے) کہیں گے اپنی دلیل لاؤ“ یعنی اپنے شرک کی صحت پر حجت و برہان کہ آیا ہم نے تمہیں اس شرک کا حکم دیا؟ کیا میرے رسولوں نے تمہیں اس کا حکم دیا؟ یا اس شرک کے جواز کے بارے میں تم نے میری کتابوں میں کچھ لکھا ہوا پایا؟ کیا ان خود ساختہ شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو الوہیت کا مستحق ہو؟ کیا یہ معبود تمہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں ؟ یا تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ہٹانے میں تمہارے کوئی کام آسکتے ہیں؟ اگر ان میں کوئی اہلیت ہے تو وہ یہ کام کر دیکھیں وہ تم سے عذاب الٰہی کو دور کریں اگر وہ ایسا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ ﴿ فَعَلِمُوا﴾ ” تب وہ جان لیں گے“ اپنے قول کے بطلان و فساد کو اور انہیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا ﴿ أَنَّ الْحَقَّ لِلّٰـهِ ﴾ ” کہ حق اللہ ہی کے لئے ہے“ خصومت ان کی طرف رخ کرلے گی۔ ان کی حجت ناکام اور اللہ تعالیٰ کی حجت غالب آجائے گی۔ ﴿وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴾ ”جو جھوٹ اور بہتان انہوں نے گھڑا تھا سب مضمحل، ناپید اور معدوم ہوجائے گا“۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں انصاف کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف اسی شخص کو سزا دی ہے جو اس کا مستحق اور اہل ہے۔