قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاهُمْ كَمَا غَوَيْنَا ۖ تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ ۖ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ
(شرکاء) جن پر بات پوری ہوگئی یوں کہیں گے کہ اے ہمارے رب یہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے بہکایا تھا جیسے ہم گمراہ تھے ویسے ہی ہم نے انہیں بھی گمراہ کیا تھا ۔ ہم تیرے آگے ان سے دست بردار ہوتے ہیں وہ فی الحقیقت ہم کو نہ پوجتے تھے بلکہ اپنی خواہشوں (ف 2) کو
اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اس وقت ان کے سامنے یہ بات اچھی طرح عیاں ہوجائے گی کہ جن خود ساختہ معبودوں کی وہ عبادت کرتے رہے ہیں جن پر ان کو بہت امیدیں اور توقعات تھیں، سب باطل اور کمزور تھے اور وہ امیدیں بھی بے ثمر تھیں جو انہوں نے ان معبودوں سے وابستہ کر رکھی تھیں وہ اپنے بارے میں ضلالت اور بے راہ روی کا اعتراف کریں گے۔ بنابریں ﴿قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ﴾ ” وہ لوگ جن پر عذاب کی بات واجب ہوجائے گی کہیں گے“ کفر و شرک میں ان کی قیادت کرنے والے سردار اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے ﴿ رَبَّنَا هَـٰؤُلَاءِ ﴾ ” اے ہمارے رب یہی“ وہ پیروکار ہیں ﴿الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاهُمْ كَمَا غَوَيْنَا﴾ ” جن کو ہم نے بد راہ کیا، ہم نے ان کو اسی طرح بدراہ کیا جس طرح ہم خود بدراہ ہوئے“۔ یعنی گمراہی اور بدراہی میں ہم میں سے ہر ایک شریک ہے اور اس پر عذاب واجب ہوگیا۔ وہ کہیں گے : ﴿ تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ﴾ یعنی ہم ان کی عبادت سے بری الذمہ ہیں ہم ان سے اور ان کے عمل سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ ﴿ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ﴾ ” یہ ہمیں نہیں پوجتے تھے“۔ یہ لوگ تو شیاطین کی عبادت کیا کرتے تھے۔