ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
یہ (اولاد) ہیں ایک دوسرے کی ، اور اللہ سنتا جانتا ہے ۔
عمران حضرت مریم علیہا السلام کے والد ماجد کا نام ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام بھی عمران تھا۔ یہ گھرانے، جن کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے، یہ جہان والوں سے اس کے منتخب افراد کے گھرانے تھے۔ ان کی اولادوں کے ذریعے سے اصلاح اور توفیق کا تسلسل قائم رہا۔ اس لئے اللہ نے فرمایا : ﴿ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ﴾” یہ سب آپس میں ایک دوسرے کی نسل سے ہیں“ ان میں باہمی مناسبت اور مشابہت تخلیق کے لحاظ سے بھی ہے اور اخلاق حسنہ کے لحاظ سے بھی۔ جس طرح اللہ نے ان خاندانوں کے دوسرے انبیاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ﴿وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾(الانعام :6؍87) ” اور ان کے کچھ آباؤ و اجداد کو اور کچھ اولاد کو اور کچھ بھائیوں کو اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راست کی ہدایت کی“ ﴿وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ ” اور اللہ سنتا جانتا ہے“ یعنی کون اس قابل ہے کہ اسے چنا جائے اور کون نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے انہیں اس لئے منتخب فرمایا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ان میں ایسی خوبیاں موجود ہیں جو انہیں انتخاب کے قابل بناتی ہیں۔ یہ بھی اللہ کا فضل و کرم تھا۔ ان بلند مرتبت حضرات کے واقعات ہمیں سننے کا فائدہ اور حکمت یہ ہے کہ ہم ان سے محبت رکھیں، ان کی اقتدا کریں، اللہ سے سوال کریں کہ جس طرح ان کو توفیق دی تھی۔ ہمیں بھی ویسے نیک اعمال کی توفیق بخشے۔ ان کے پیچھے رہ جانے اور ویسی صفات سے متصف نہ ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو حقیر سمجھتے رہیں (یعنی اپنے اعمال پر فخر نہ کریں) علاوہ ازیں اس بیان میں ان پر مہربانی ہے، اولین و آخرین میں ان کی تعریف کا اظہار ہے اور ان کے شرف و عظمت کا اعلان ہے۔ اللہ کا جو دو کرم کتنا عظیم ہے، اگر کوئی اور شرف نہ بھی ہوتا تو ان کے لئے یہی شرف کافی تھا کہ ان کا ذکر اور ان کی خوبیوں کا بیان دوام پا گیا ہے۔