إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا سَآتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ آتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
جب موسیٰ نے اپنے گھروالوں سے کہا کہ میں نے آگ دیکھی ہے اب میں وہاں سے تمہارے پاس کوئی خبر لاؤنگا یا تمہارے پاس دہکتا ہوا انگارا لاؤں گا شاید تم تاپو
یعنی موسیٰ بن عمران علیہ السلام کے احوال میں سے آپ پر وحی کی ابتداء، اللہ تعالیٰ کے آپ کو چن لینے اور آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کلام کرنے کی حالت شریفہ و فاضلہ کو یاد کیجئے۔۔۔ یہ واقعہ یوں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام مدین میں چند سال ٹھہرے اور پھر مدین سے اپنے گھر والوں کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوئے تو سفر کے دوران وہ راستہ بھول گئے، رات سخت تاریک اور ٹھنڈی تھی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا : ﴿ إِنِّي آنَسْتُ نَارًا ﴾ یعنی میں نے (دور) آگ دیکھی ہے : ﴿ سَآتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ ﴾ میں وہاں سے تمہارے لئے راستے کے بارے میں کوئی خبر لاتا ہوں ﴿ أَوْ آتِيكُم بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ ﴾ ” یا سلگتا ہوا نگارا تمہارے پاس لاتا ہوں، تاکہ تم آگ تاپ سکو۔“ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اور ان کے گھر والے بیاباں میں بھٹک گئے تھے اور سخت سردرات تھی۔