وَمَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَإِن نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ
اور تو تو ہماری مانند ایک آدمی ہے ۔ اور ہمارے خیال میں تو تو جھوٹا ہے
﴿ وَمَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ﴾ ” اور تم ہماری ہی طرح کے انسان ہو۔“ اس لئے تمہارے اندر ایسی کوئی فضیلت نہیں ہے جس کی بنا پر تمہیں ہم پر کوئی اختصاص حاصل ہو، یہاں تک کہ تم ہم سے اپنی اتباع کا مطالبہ کرنے لگو۔ اس قسم کی بات ان سے پہلے لوگوں نے بھی کی اور ان کے بعد آنے والوں نے بھی کی اور اسی شبہ کی بنا پر انہوں نے رسولوں کی مخالفت کی اور ان پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ وہ دلوں کی مشابہت اور کفر پر اتفاق ہونے کی وجہ سے اس شبہ پر بھی متفق ہیں۔ رسولوں نے ان کے اس شبہ اور اعتراض کا ان الفاظ میں جواب دیا : ﴿ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ﴾ (ابراہیم :14؍11) ” ہم کچھ نہیں مگر تم ہی جیسے انسان ہیں، لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔“ ﴿وَإِن نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ ﴾ ” اور ہمارا خیال ہے کہ تم جھوٹے ہو۔“ یہ ان کی جرأت، ظلم اور قول باطل تھا وہ سب حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت پر متفق تھے۔ جو کوئی بھی رسول اپنی قوم میں مبعوث ہوا اس نے اپنی قوم کو توحید کی طرف دعوت دی اور اپنی قوم کے ساتھ مجادلہ کیا اور انہوں نے بھی اس (نبی) سے مجادلہ کیا البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ پر ایسی ایسی نشانیاں ظاہر کیں جن کی بنا پر انہیں اس کی صداقت اور امانت پر یقین تھا۔ خاص طور پر شعیب علیہ السلام، جن کو اپنی قوم کے ساتھ بہترین طریقے سے بحث و جدال کرنے کی بنا پر ” خطیب الانبیاء“ کہا جاتا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو آپ کی صداقت کا یقین تھا اور وہ خوب جانتے تھے کہ آپ کی دعوت حق ہے۔ مگر ان کا آپ کے بارے میں جھوٹ کا گمان کرتے ہوئے خبر دینا، ان کا جھوٹ تھا۔