وَإِذَا رَأَوْكَ إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا
اور جب (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تجھے دیکھتے ہیں تو سوائے ٹھٹھے کے تجھ سے اور کچھ مطلب نہیں رکھتے کیا یہی شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ف 2
اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی تکذیب کرنے والے، اللہ تعالیٰ کی آیات سے عناد رکھنے والے اور زمین پر تکبر سے چلنے والے جب آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ سے استہزءا کرتے ہیں اور آپ کی تحقیر کرتے ہیں، آپ کو معمولی سمجھتے ہوئے حقارت آمیز لہجے میں کہتے ہیں : ﴿أَهَـٰذَا الَّذِي بَعَثَ اللّٰـهُ رَسُولً ﴾ ” کیا یہی وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟“ یعنی یہ مناسب اور لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو رسول بناتا۔ یہ سب کچھ ان کے شدت ظلم، ان کے عناد اور حقائق بدلنے کے سبب تھا کیونکہ ان کے اس کلام سے یہ ذہن میں آتا ہے کہ (معاذ اللہ) رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتہائی خسیس اور حقیر شخص تھے اور اگر رسالت کا منصب کسی اور شخص کو عطا کیا گیا ہوتا تو زیادہ مناسب تھا۔﴿ وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَـٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ﴾ (الزخرف : 43؍31) ” وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن دونوں شہروں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ اتارا گیا۔“ پس یہ کلام کسی جاہل ترین اور گمراہ ترین شخص ہی سے صادر ہوسکتا ہے یا کسی ایسے شخص سے صادر ہوسکتا ہے جو بڑا عناد پسند اور جانتے بوجھتے جاہل ہو۔ اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے نظریات کو رائج کرے اور حق اور حق پیش کرنے والے میں جرح و قدح کرے، ورنہ اگر کوئی شخص، رسول مصطفی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال پر غور کرے تو وہ آپ کو عقل، علم، ذہانت، وقار، مکارم اخلاق، محاسن عادات، عفت، شجاعت اور تمام اخلاق فاضلہ میں دنیا کا سب سے بڑا شخص، ان کا سردار اور ان کا قائد پائے گا۔ آپ کو حقیر جاننے اور آپ کے ساتھ دشمنی رکھنے والے شخص میں حماقت، جہالت، گمراہی، تناقض، ظلم اور تعدی جمع ہیں جو کسی اور شخص میں جمع نہیں۔ اس کی جہالت اور گمراہی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اس عظیم رسول اور بہترین قائد میں جرح و قدح کرتا ہے۔ اس جرح و قدح سے اس کا مقصد آپ کا تمسخر اڑانا، اپنے باطل نظریات پر ڈٹے رہنا اور ضعیف العقل لوگوں کو فریب دینا ہے۔