رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ
وہ لوگ جنہیں تجارت اور بیع اللہ کے ذکر اور نماز کے قائم کرنے ، اور زکوۃ دینے سے غافل نہیں کرتی ، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی ۔
﴿ رِجَالٌ ﴾ یعنی ان مساجد میں، ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں جو اپنے رب پر دنیا، اس کی لذتوں، تجارت، کاروبار اور اللہ سے غافل کردینے والے کسی مشغلے کو ترجیح نہیں دیتے۔ ﴿ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ ﴾ ” ان کو غفلت میں نہیں ڈالتی کوئی تجارت۔“ اور یہ ہر اس کسب کو شامل ہے جس میں معاوضہ لینا مقصود ہو تب اس صورت میں ﴿ وَلَا بَيْعٌ ﴾ کا جملہ، عام پر عطف خاص کے باب میں سے ہے کیونکہ دیگر کاموں کی نسبت خرید فروخت میں زیادہ مشغولیت پائی جاتی ہے۔ پس یہ لوگ، اگرچہ تجارت کرتے ہیں، خرید و فروخت کرتے ہیں۔۔۔۔ کیونکہ اس میں کوئی ممانعت نہیں۔۔۔۔ مگر یہ تمام کام انہیں غافل نہیں کرتے کہ وہ ان امور کو ﴿ عَن ذِكْرِ اللّٰـهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ﴾ ” اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے“ پر ترجیح دیتے ہوئے ان کو مقدم رکھیں بلکہ اس کے برعکس ان کی غایت مراد اور نہایت مقصود یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کریں۔ اس اطاعت و عبادت اور ان کے درمیان جو چیز بھی حائل ہو، وہ اسے دور پھینک دیتے ہیں۔ چونکہ اکثر نفوس کے لیے دنیا کا ترک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، مختلف انواع کی تجارت اور مکاسب سے انہیں شدید محبت ہوتی ہے، غالب حالات میں ان امور کو ترک کرنا ان پر گراں گزرتا ہے اور ان امور پر اللہ تعالیٰ کے حقوق کو مقدم رکھنے سے انہیں بہت تکلیف پہنچتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ترغیب و ترہیب کے ذریعے سے اس کی طرف دعوت دی ہے، چنانچہ فرمایا ﴿ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ ﴾ اس روز شدت ہول اور قلب و بدن کے دہشت زدہ ہونے کے باعث دل الٹ جائیں گے اور آنکھیں پتھرا جائیں گی، اس لیے وہ اس دن سے ڈرتے ہیں، بنا بریں ان کے لیے عمل کرنا اور عمل سے غافل کرنے والے امور کو ترک کرنا آسان ہوجاتا ہے۔