سورة النور - آیت 26

الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

گندی عورتیں گندے مردوں کیلئے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کیلئے ہیں اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کیلئے ہیں ، اور ستھرے مر نہ ستھری عورتوں کیلئے ہیں یہ لوگ ان باتوں سے بری ہیں جو وہ کہتے ہیں ان کے لئے مغفرت اور عزت کی روزی ہے (ف ١) ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ﴾ یعنی تمام ناپاک مردوزن، تمام ناپاک کلمات اور تمام ناپاک افعال نا پاک شخص کے لائق اور اسی کے مناسب حال، اسی سے مقرون اور اسی سے مشابہت رکھتے ہیں اور تمام پاک مردو زن، پاک کلمات اور پاک افعال پاک شخص کے لائق، اسی کے مناسب حال، اسی سے مقرون اور اسی سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ ایک عام اصول ہے اس سے کوئی چیز باہر نہیں۔ اس کا سب سے بڑا اور اہم اطلاق انبیائے کرام پر ہوتا ہے، انبیائے کرام علیہم السلام، خاص طور پر اولوالعزم انبیاء ورسل علیہم السلام اور ان میں بھی خاص طور پر سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو تمام مخلوق میں علی الاطلاق سب سے زیادہ طیب و طاہر ہیں، کے لائق اور مناسب حال صرف طیبات و طاہرات عورتیں ہی ہوسکتی ہیں۔ بنابریں اس بارے میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں جرح و قدح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی ہونے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اس قبیح بہتان سے پاک ہیں۔ تب ان کے بارے میں کیسے قبیح بات کہی جاسکتی ہے جبکہ ان کی اتنی بڑی شان ہے ؟ وہ عورتوں میں ” صدیقہ“ کے مرتبے پر فائز ہیں، عورتوں میں سب سے افضل، سب سے زیادہ عالمہ سب سے زیادہ طیبہ و طاہرہ اور رب العالمین کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوبہ ہیں۔ صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں کہ آپ ان کے لحاف میں ہوتے تو بھی آپ پر وحی نازل ہوجاتی دیگر ازواج مطہرات میں سے کسی اور کو یہ فضیلت حاصل نہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس طرح تصریح فرمائی کہ کسی باطل پسند کے لیے کسی بات اور کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی، چنانچہ فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ﴾ ” یہ لوگ پاک ہیں ان باتوں سے جو لوگ (ان کی بابت) کہتے ہیں۔“ اصولاً یہ اشارہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف ہے اور تبعاً دیگر مومن، پاک دامن اور بھولی بھالی بے خبر عورتوں کی طرف ہے ﴿ لَهُم مَّغْفِرَةٌ ﴾ ” ان کے لیے بخشش ہے۔“ جو سارے گناہوں پر حاوی ہوگی ﴿ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ﴾ ” اور با عزت رزق“ جو جنت میں رب کریم کی طرف سے صادر ہوگا۔