سورة النور - آیت 6

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جو لوگ اپنی بیویوں کو تہمت لگائیں ، اور ان کے پاس خود اپنی جانوں کے اور گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی کی گواہی ہے کہ اللہ کی قسم کھا کر چار دفعہ گواہی دے ، کہ مقرر وہ سچوں میں ہے ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

بیوی پر زنا کا الزام لگانے کی صورت میں شوہر کی چار گواہیاں اسے قذف کی حد سے بچا سکتی ہیں کیونکہ غالب حالات میں شوہر بیوی پر زنا کا بہتان نہیں لگاتا جس سے اس کی بیوی کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی شخصیت بھی عیب دار ہوتی ہے سوائے اس صورت میں کہ جب وہ الزام لگانے میں سچا ہو۔ نیز شوہر کا اس بارے میں حق ہے اور اسے اس بات کا بھی خوف ہوتا ہے کہ کہیں ایسی اولاد کا اس سے الحاق نہ ہوجائے جو اس کی نہیں ہے، نیز اس میں بعض دیگر حکمتیں بھی ہیں جو دوسرے احکام میں موجود نہیں ہیں۔ اس لیے فرمایا : ﴿وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ﴾ اور وہ جو تہمت لگائیں اپنی بیویوں پر“ یعنی لونڈیوں پر نہیں بلکہ آزاد عورتوں پر، جو بیویاں ہوں ﴿ وَلَمْ يَكُن لَّهُمْ ﴾ ” اور نہ ہوں ان کے لیے“ اس الزام پر ﴿شُهَدَاءُ إِلَّا أَنفُسُهُمْ﴾ ” اپنے سوا کوئی اور گواہ“ جنہیں وہ اپنے اس الزام پر اپنا گواہ بنا سکیں۔ ﴿ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّـهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ﴾ ” تو ان میں سے ایک کی گواہی، چار گواہیاں دینی ہیں اللہ کی کہ وہ سچا ہے۔“ ( یعنی اپنی سچائی پر چار قسمیں کھائے) اللہ تعالیٰ نے ان قسموں کو( شھادت) کہا ہے کیونکہ یہ قسمیں گواہوں کے قائم مقام ہیں، قسمیں اٹھانے والا یہ الفاظ کہتا ہے ” میں اللہ کو گواہ بنا کر گواہی دیتا ہوں کہ، میں نے جو الزام لگایا ہے، میں اس میں سچا ہوں۔ “