سورة المؤمنون - آیت 62

وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ نکلیف نہیں دیتے ، اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو سچ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہ ہوگا (ف ٢) ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تعالیٰ نے نیکیوں میں ان کی سرعت اور سبقت کا ذکر کیا تو اس سے کسی کو یہ وہم لاحق ہوسکتا تھا کہ ان سے اور دیگر لوگوں سے ایسے امور مطلوب ہیں جو ان کی مقدرت سے باہر یا بہت مشکل ہیں، بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ﴾ یعنی ہم ہر نفس کو بس اتنی ہی تکلیف دیتے ہیں جتنی اس کی قوت کے دائرے میں ہوتی ہے اور وہ تکلیف ایسی نہیں ہوتی جو اس کی پوری قوت کو صرف کر دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور حکمت ہے تاکہ اس کے پاس پہنچنے کا راستہ ہو اور اہل سلوک کی راہیں ہر وقت آباد رہیں۔ ﴿ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ﴾’’اور ہمارے پاس کتاب ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے۔“ اور وہ کتاب اول ہے جس میں ہر چیز درج ہے اور چونکہ جو کچھ اس میں درج ہے ہر چیز اس کے مطابق واقع ہوگی، اس لیے یہ حق ہے﴿وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴾ ”اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے۔“ یعنی ان کی نیکیوں میں کچھ کمی کی جائے گی نہ ان کی سزا اور گناہوں میں کوئی اضافہ ہوگا۔