أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
کیا تم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے پاس کھجور اور انگور کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں ، اور وہاں اس کے لئے ہر طرح کا میوہ ہو اور اس پر بڑھاپا آجائے اور اس کی اولاد ناتوان ہو ، پھر اس باغ پر بگولا آپڑے جس میں آگ ہو اور وہ اس باغ کو جلا دے ، یوں اللہ تمہارے لئے آیتیں بیان کرتا ہے ، تاکہ تم فکر کرو ۔
یہ مثال اس شخص کی ہے جو صدقہ وغیرہ نیکی کا کام اللہ کی رضا کے لئے کرتا ہے، پھر کوئی ایسا کام کردیتا ہے جس سے وہ نیکی تباہ ہوجائے۔ اس کی مثال ایک باغ کے مالک کی سی ہے جس کے باغ میں ہر قسم کے پھل ہیں۔ ان میں سے کھجور اور انگور کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے کیونکہ یہ دوسروں سے افضل ہیں اور ان کے فوائد بھی زیادہ ہیں۔ ان کا استعمال خوراک کے طور پر بھی ہوتا ہے اور میوہ کے طور پر (لطف اندوزی کے لئے) بھی ہے۔ اس باغ میں نہریں بھی چل رہی ہیں، جن کی وجہ سے آب پاشی میں کوئی مشقت نہیں ہوتی۔ اس کا مالک اس پر خوش ہے، لوگ رشک کرتے ہیں۔ یہ آدمی بوڑھا ہوگیا، کام کاج کے قابل نہیں رہا۔ اس لئے اب اسے باغ ہی سے امید ہے۔ اس کی اولاد کمزور ہے، جو کام کاج میں اس کی مدد نہیں کرسکتی۔ بلکہ اس کے لئے بوجھ ہے۔ اس کا اپنا خرچ بھی باغ سے چلتا ہے اور بچوں کا بھی۔ ان حالات میں باغ پر آندھی آگئی۔ (اِعْصَار) اس تیز ہوا کو کہتے ہیں جو گول گھومتی ہے اور اوپر کو بلند ہوتی ہے۔ اس بگولے میں آگ تھی جس سے باغ جل گیا۔ اس حادثے سے جو رنج و غم حاصل ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اگر غم سے مرا جاسکتا تو یہ آدمی ضرور مر جاتا۔ اس طرح جو شخص اللہ کی رضا کے لئے عمل کرتا ہے تو اس کے عمل کھیتی اور پھلوں کے بیج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے اعمال کے نتیجے میں اسے وہ باغ مل جاتا ہے جو بے انتہا دلکش ہے۔ نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال اس بگولے کی طرح ہیں، جس میں آگ ہے۔ بندہ اپنے اعمال کا انتہائی ضرورت مند اس وقت ہوتا ہے جب وہ فوت ہوتا ہے۔ اس وقت اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ مزید کوئی عمل نہیں کرسکتا اور جس عمل سے فائدے کی امید کی جاسکتی ہے وہ گرد و غبار کی طرح بے حقیقت ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر انسان اس صورتحال کو سمجھ لے اور اس کا تصور کرے تو اگر اسے تھوڑی سی عقل حاصل ہے تو ایسا کام ہرگز نہ کرے گا، جس میں اس کا اس قدر نقصان ہے اور جس کا انجام حسرت و افسوس ہے، لیکن ایمان و عقل کی کمزوری کی وجہ سے اور بصیرت کی کمی کی وجہ سے انسان اس حال کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر ایسی حرکت کسی مجنوں سے بھی سر زد ہو تو وہ عظیم اور انتہائی خطرناک ہو۔ اس لئے اللہ نے غور و فکر کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ﴿كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ﴾ ” اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔ “