سورة المؤمنون - آیت 41

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَاءً ۚ فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر انہیں سچے وعدہ کے مطابق چنگھاڑنے آپکڑا پھر ہم نے انہیں کوڑا کردیا ، سو ظالم لوگوں کے لئے دوری ہے ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿  قَالَ﴾ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا : ﴿عَمَّا قَلِيلٍ لَّيُصْبِحُنَّ نَادِمِينَ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ بِالْحَقِّ﴾ ” بہت ہی جلد یہ اپنے کیے پر پچھتانے لگیں گے، پس ان کو چیخ نے پکڑ لیا حق ( عدل) کے ساتھ۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو ظلم وجور سے نہیں پکڑا بلکہ اس کی پکڑ ان کے ظلم اور اس کے عدل کی وجہ سے ہوئی، چنانچہ ایک زبر دست چنگھاڑ نے ان کو آلیا ﴿ فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَاءً﴾ یعنی ہم نے ان کو خشک بھوسہ بنا کر رکھ دیا ایسے لگتا تھا جیسے کوڑے کرکٹ کو سیلاب نے وادی کے کناروں پر پھینک دیا ہو، ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَكَانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ ﴾ )القمر:31؍54)” ہم نے ان پر عذاب کے لیے ایک زبردست چیخ بھیجی اور وہ ایسے ہوگئے جسے ٹوٹی ہوئی باڑ“ اور فرمایا : ﴿ فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ ” پس دوری ہے ظالم لوگوں کے لیے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے عذاب کے ساتھ، اس کی رحمت سے محرومی، اس کی لعنت اور جہانوں کی مذمت بھی ان کے حصے میں آئی ﴿فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنظَرِينَ ﴾ (الدخان :44؍29)” پس ان پر آسمان رویا نہ زمین اور نہ ان کو مہلت دی گئی۔“