سورة البقرة - آیت 264

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! احسان جتا کر اور ایذا (ف ٣) کر اپنی خیرات کو ضائع نہ کرو ، جیسے وہ جو اپنا مال لوگوں کے دکھلانے کو خرچ کرتا ہے اور خدا پر ایمان نہیں رکھتا ، سو اس کی مثال اس صاف پتھر کی مانند ہے جس پر کچھ مٹی پڑی ہو پھر اس پر موسلادھار پانی برسے اور وہ اس کو صاف کر چھوڑے (ریاکار) اپنی کمائی پر کچھ اختیار نہیں رکھتے ، اور خدا منکروں کو ہدایت نہیں کرتا ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و شفقت فرماتے ہوئے انہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ وہ احسان جتلا کر اور تکلیف دے کر اپنے صدقے ضائع کر بیٹھیں۔ اس میں اشارہ ہے کہ احسان جلانے اور تنگ کرنے سے صدقہ کالعدم ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ گناہوں کے ارتکاب کے نتیجے میں نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ جیسے ارشاد ربانی ہے ﴿وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ﴾ (الحجرات :49؍ 2) ” نبی سے اونچی آواز سے بات نہ کرو، جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال اکارت جائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔“ چنانچہ جس طرح نیکیوں کی وجہ سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح گناہ بھی اپنے مقابلے میں آنے والی نیکیوں کو ضائع کرسکتے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ﴿وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴾ (محمد :47؍ 33) ” اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔“ ان دونوں آیات میں عمل کو مکمل کرنے اور اسے خراب کرنے والی اشیاء سے محفوظ رکھنے کی ترغیب ہے تاکہ عمل بے کار نہ ہوجائے۔ پھر فرمایا ﴿كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ﴾ ”جس طرح وہ شخص جو اپنامال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے۔ نہ اللہ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر۔‘،یعنی اگر تم نے شروع میں اللہ کی رضا کی نیت رکھ کر بھی عمل کیا ہو تو احسان جتلانے سے وہ تباہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ تمہارا یہ عمل اس شخص کے عمل کی طرح ہوجائے گا جو صرف دکھاوے کے لئے نیکی کرتا ہے۔ اس کا مقصد اللہ کی رضا اور جنت کا حصول نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ اس کا عمل سرے سے ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ عمل مقبول کی شرط یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کے لئے ہو۔ اس شخص نے اصل میں عمل کیا ہی لوگوں کے لئے ہے، اللہ کے لئے کیا ہی نہیں۔ لہٰذا اس کا عمل کالعدم ہوگا اور اس کی محنت بے کار جائے گی۔ اس کے حال کے مطابق تو اس کی مثال ﴿كَمَثَلِ صَفْوَانٍ﴾” ملائم اور سخت پتھر کی سی ہے۔‘‘﴿عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ﴾” جس پر کچھ مٹی پڑی ہے۔ پھر اس پر زور دار مینہ برسا“ ﴿فَتَرَكَهُ صَلْدًا ﴾ ” یعنی اسے اس طرح کا کر کے چھوڑا کہ اس پر وہ مٹی بالکل باقی نہیں رہی۔ دکھاوا کرنے والے کی بھی یہی مثال ہے۔ اس کا سخت دل صاف اور سخت پتھر کے مشابہ ہے۔ اس کا صدقہ وغیرہ اس پتھر پر پڑی ہوئی مٹی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو شخص اس پتھر کی حقیقت سے واقف نہیں، وہ خیال کرے گا کہ یہ قابل کاشت اور زرخیز زمین ہے۔ جب حقیقت ظاہر ہوگئی تو گویا وہ مٹی ہٹ گئی اور معلوم ہوگیا کہ اس کا عمل ایک سراب کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا دل تو اس قابل تھا ہی نہیں کہ اس میں (نیکی کی) کھیتی اگ سکے اور بڑھ پھول سکے۔ اس کی ریاکاری اور بدنیتی اسے کسی نیکی سے مستفید ہونے کے قابل نہیں چھوڑتی۔ اس لئے فرمایا ﴿ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ﴾” یعنی وہ اپنے کمائے ہوئے اعمال میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے، کیونکہ انہوں نے ان اعمال کو غلط جگہ پر رکھا اور اپنے جیسی مخلوق کے لئے انجام دیا جس کے ہاتھ میں نہ نفع ہے نہ نقصان۔ جس رب کی عبادت سے فائدہ ہوسکتا ہے اس کی عبادت سے منہ موڑ لیا، تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ہدایت سے پھیر دیا۔ اس لئے فرمایا: ﴿وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ﴾” اللہ کافروں کی قوم کو راہ نہیں دکھاتا۔ “