ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ
یہ تو حکم ہے ، اور جو کوئی حرمات خدا کی تعظیم کرے ، سو وہ اس کے لئے اس کے رب کے نزدیک بہتر ہے ، اور تمہارے لئے چوپائے حلال ہیں مگر جو تمہیں پڑھ کر سنائے جائیں گے ، پس تم بتوں کی ناپاکی اور جھوٹ بولنے سے بچتے رہو ۔
﴿ذٰلِكَ﴾ یعنی وہ احکام جن کا ہم تمہارے سامنے ذکر کرچکے ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم، توقیر اور تکریم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم ایسے امور میں شمار ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو نہایت محبوب اور اس کے تقریب کا ذریعہ ہیں۔ جس نے ان کی تعظیم و توقیر کی، اللہ تعالیٰ اسے بے پایاں ثواب عطا کرے گا یہ حرمات اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندے کے دین، دنیا اور آخرت میں اس کے لئے بہتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حرمات سے مراد، وہ امور ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں محترم ہیں اور جن کے احترام کا اس نے حکم دیا ہے، یعنی عبادات وغیرہ، مثلاً تمام مناسک حج، حرم اور احرام، بیت اللہ کو بھیجے گئے قربانی کے جانور اور وہ تمام عبادات جن کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے۔ پس ان کی تعظیم یہ ہے کہ دل سے ان کی توقیر اور ان کے ساتھ محبت کی جائے اور کسی تحقیر، سستی اور بے دلی کے بغیر ان میں عبودیت کی تکمیل کی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان اور اپنی نوازشات کا ذکر فرمایا کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے چوپایوں میں سے مویشی حلال کردیئے، مثلاً اونٹ، گائے اور بھیڑبکری وغیرہ اور ان کو ان جملہ مناسک میں مشروع کیا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ پس ان دونوں پہلوؤں سے ان میں اللہ تعالیٰ کی عنایت بہت عظیم ہوگئی ہے۔ ﴿إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ﴾” سوائے ان جانوروں کے جن کی تلاوت تم پر کی جاتی ہے۔“ یعنی جن کی تحریم قرآن مجید میں بایں الفاظ ہے۔ ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ﴾ (المائدۃ :5؍3) ” حرام کردیا گیا تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، وہ جانور جو گلا گھٹ کر مر جائے، جو چوٹ لگ کر مر جائے، جو سینگ لگ کر مر جائے اور جس کو درندے پھاڑ کھائیں سوائے اس کے جس کو تم مرنے سے پہلے ذبح کرلو اور وہ جانور جن کو استھانوں پر ذبح کیا جائے۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ اس نے ان چیزوں کو ان کے تزکیہ کے لئے اور شرک اور جھوٹی بات سے تطہیر کی خاطر حرام قرار دیا ہے۔ بناء بریں فرمایا : ﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ﴾ یعنی خبث اور گندگی سے اجتناب کرو۔ ﴿مِنَ الْأَوْثَانِ﴾ ” یعنی بتوں سے“ یعنی ہمسروں سے، جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود بنا رکھا ہے، یہ معبود ان باطل سب سے بڑی گندگی ہیں۔ ظاہر ہے یہاں حرف جار) مِنْ( بیان جنس کے لئے نہیں ہے، جیسا کہ اکثر مفسرین کی رائے ہے بلکہ یہ تبعیض کے لئے ہے اور )رجس( تمام منہیات محرمات کے لئے عام ہے تب یہ نہی عام ہے اور بتوں کی گندگی سے اجتناب کا حکم خاص ہے، جو حرام شدہ منہیات ہی کا حصہ ہے ﴿وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ﴾ یعنی تمام حرام شدہ اقوال سے اجتناب کرو کیونکہ یہ سب جھوٹی کلام میں شمار ہوتے ہیں۔