وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ
اور آدمیوں میں سے کوئی ایسا ہے کہ اللہ کی عبادت کنارہ پر کرتا ہے سو اگر اسے بھلائی پہنچتی ہے تو اس سے تسلی پاتا ہے اور جو اس پر آزمائش آتی ہے تو اپنے منہ پر پلٹ جاتا ہے ، دنیا اور آخرت گنوائی ، صریح نقصان یہی ہے ۔
یعنی لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو ضعیف الایمان ہے جس کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا، ایمان کی بشاشت اس کے دل میں جاگزیں نہیں ہوئی۔ بلکہ وہ یا تو خوف سے ایمان لایا ہے یا محض عادت کی بنا پر اور وہ بھی اس طریقے سے کہ وہ سختیاں برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ ﴿فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ﴾ یعنی اگر اسے وافر رزق مل رہا ہے اور اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچی، تو وہ ایمان پر نہیں، بلکہ پہنچنے والی بھلائی پر مطمئن ہوتا ہے۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ بسا اوقات اسے عافیت میں رکھتا ہے اور اسے ایسے فتنوں میں مبتلا نہیں کرتا جو اسے اس کے دین سے پھیر دیں۔ ﴿وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ﴾اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا کوئی محبوب چیز اس سے چھن جاتی ہے ﴿انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ ﴾ ” پھر جاتا ہے اپنے چہرے پر۔“ یعنی اپنے دین سے پھر جاتا ہے۔ ﴿خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ﴾ ” خسارہ اٹھایا اس نے دنیا اور آخرت کا۔“ دنیا میں خسارہ یہ ہے کہ جس امید پر وہ مرتد ہوا اور جس امید کو اس نے سرمایہ قرار دے رکھا تھا وہ پوری نہ ہوئی اور وہ عوض جس کے حاصل ہونے کا اسے یقین تھا حاصل نہ ہوا۔ پس اس کی کوشش ناکام ہوئی اور اسے صرف وہی کچھ حاصل ہوا جو اس کی قسمت میں لکھا ہوا تھا۔ رہا آخرت کا خسارہ، تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، اس پر حرام کردیا اور وہ جہنم کا مستحق ہوا۔ ﴿ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴾ اور یہ واضح اور کھلا خسارہ ہے۔