سورة الأنبياء - آیت 13

لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَىٰ مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بھاگو مت ‘ اور اسی کی طرف لوٹو ، جس میں تم آرام کرتے تھے ‘ اور اپنے گھروں کی طرف (لوٹ جاؤ ) شاید تم کو کوئی پوچھے ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب ان ہلاک ہونے والوں نے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کے عقاب کے نزول کو دیکھ لیا تو ان کے لئے لوٹنا ممکن نہ رہا اور اس عذاب سے رہائی پانے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہ رہا تو وہ تو صرف ندامت، افسوس اور اپنے کرتوتوں پر حسرت کے مارے زمین پر پاؤں پٹختے تھے، تو تمسخر اور ٹھٹھے کے انداز میں ان سے کہا گیا۔ ﴿لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَىٰ مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ﴾ یعنی اب ندامت کا اظہار کرنے اور ایڑیاں مارنے سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر تم قدرت رکھتے ہو تو اپنی لذتوں اور شہوتوں بھری خوشحال زندگی، اپنے آراستہ اور مزین گھروں اور اس دنیا کی طرف واپس لوٹ کر دکھاؤ جس نے تمہیں دھوکے میں ڈال کر غافل رکھا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آن پہنچا۔ پس واپس لوٹ کر دنیا میں ڈیرے ڈال دو، اس کی لذات کی خاطر جرائم کا ارتکاب کرو، اپنے گھروں میں اطمینان کے ساتھ بڑے بن کر رہو۔ شاید اپنے امور میں تم پھر مقصود بن جاؤ اور دنیا کے معاملات میں پھرتم سے جواب دہی کی جائے جیسا کہ پہلے تمہارا حال تھا۔ لیکن یہ بہت بعید ہے۔ اب دنیا میں کیسے واپس جایا جاسکتا ہے، وہ وقت ہاتھ سے نکل گیا اور ان پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کا عذاب نازل ہوگیا، ان کا عزو شرف ختم ہوگیا اور ان کی دنیا بھی فنا ہوگئی اور ندامت اور حسرت ان کا نصیب بن گئی۔