بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ
بلکہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن پریشان خوابوں کا مجموعہ ہے بلکہ اس نے جھوٹ باندھا ہے ، بلکہ وہ شاعر ہے سو اس کو چاہئے کہ ہمارے پاس کوئی نشانی لائے جیسے پہلے لوگ بھیجے گئے تھے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن عظیم پر کفار کی بہتان طرازی کا ذکر کرتا ہے کہ وہ قرآن کے بارے میں جھوٹ گھڑتے اور اس کے بارے میں مختلف باطل باتیں پھیلاتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں ” یہ پراگندہ خواب ہیں“ ایک سوئے ہوئے شخص کے ہذیانی کلام کی مانند، جسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ کبھی کہتے ہیں ” یہ اس کا من گھڑت کلام ہے“ جو اس نے اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے اور کبھی کہتے ہیں ” یہ شاعر ہے“ اور جو قرآن یہ لے کر آیا ہے وہ محض شاعری ہے۔ جو کوئی واقعات اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال کی ادنیٰ سی بھی معرفت رکھتا ہے اور اس کلام میں غور کرتا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں وہ ایسے جزم و یقین سے پکار اٹھتا ہے، جس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں ہوتا کہ یہ نہایت جلیل القدر اور بلند ترین کلام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ کوئی بشر اس جیسا کلام پیش کرنے پر قادر نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمنوں کے سامنے چیلنج کیا ہے کہ وہ اس کلام کا مقابلہ کر دکھائیں، حالانکہ ان کے اندر قرآن عظیم کی مخالفت اور اس کے ساتھ عداوت کا وافر داعیہ موجود تھا۔ بایں ہمہ وہ اس کلام کا مقابلہ نہ کرسکے اور وہ یہ سب کچھ جانتے ہیں۔ ورنہ وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو باز رکھا، ان کو کانٹوں پر لوٹنے پر مجبور کیا اور ان کی زبانوں کو گنگ کردیا؟۔۔۔ وہ حق کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے جس کا کوئی چیز مقابلہ نہیں کرسکتی؟ اور چونکہ وہ اس پر ایمان نہیں رکھتے اس لئے ایسے لوگوں کو، جو اس کی معرفت نہیں رکھتے متنفر کرنے کے لئے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ قرآن عظیم ہمیشہ رہنے والا سب سے بڑا معجزہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کی صحت اور آپ کی صداقت پر دلالت کرتا ہے اور یہ کافی وشافی ہے۔ پس جو اس کے علاوہ کوئی اور دلیل طلب کرتا ہے اور اپنی خواہش کے مطابق معجزوں کا مطالبہ کرتا ہے، وہ جاہل اور ظالم ہے اور ان معاندین حق سے مشابہت رکھتا ہے جنہوں نے اس کی تکذیب کی، معجزات کا مطالبہ کیا جو ان کے لئے سب سے زیادہ ضرر رساں چیز ہے اور ان معجزات میں ان کے لئے کوئی بھلائی نہیں کیونکہ اگر ان کا مقصد واضح دلیل کے ذریعے سے معرفت حق ہے تو دلیل ان معجزات کے بغیر بھی واضح ہوچکی ہے اور اگر ان کا مقصد عاجز کرنا اور معجزات کا مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں اپنے لئے عذر کا جواز پیدا کرنا ہے۔۔۔ تو اس صورت میں بھی جب کہ فرض کرلیا جائے کہ ان کی خواہش کے مطابق معجزہ پیش کردیا جائے، وہ قطعاً ایمان نہیں لائیں گے۔ پس واقعہ یہ ہے کہ اگر ان کے پاس ہر قسم کا معجزہ ہی کیوں نہ آجائے تو پھر بھی وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا قول نقل فرمایا : ﴿فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ﴾ ” وہ ہمارے پاس ایسی کوئی نشانی لائے جیسے پہلے پیغمبر (ان کے ساتھ) بھیجے گئے۔“ جیسے صالح علیہ السلام کی اونٹنی اور موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام کا عصا اور اس جیسے معجزات۔